تری قدرت کی قدرت کون پا سکتا ہے کیا قدرت
تری قدرت کی قدرت کون پا سکتا ہے کیا قدرت
ترے آگے کوئی قادر کہا سکتا ہے کیا قدرت
تو وہ یکتائے مطلق ہے کہ یکتائی میں اب تیری
کوئی شرک دوئی کا حرف لا سکتا ہے کیا قدرت
زمیں سے آسماں تک تو نے جو جو رنگ رنگے ہیں
یہ رنگ آمیزیاں کوئی دکھا سکتا ہے کیا قدرت
ہزاروں گل ہزاروں گل بدن تو نے بنا ڈالے
کوئی مٹی سے ایسے گل کھلا سکتا ہے کیا قدرت
ہوئے ہیں نور سے جن کے زمین و آسماں پیدا
کوئی یہ چاند یہ سورج بنا سکتا ہے کیا قدرت
ہوا کے فرق پر کوئی بنا کر ابر کا خیمہ
طنابیں تار باراں کی لگا سکتا ہے کیا قدرت
جم و اسکندر و دارا و کیکاؤس و کیخسرو
کوئی اس ڈھب کے دل بادل بنا سکتا ہے کیا قدرت
کیا نمرود نے گو کبر سے دعویٰ خدائی کا
کہیں اس کا یہ دعویٰ پیش جا سکتا ہے کیا قدرت
نکالا تیرے اک پشتے نے کفشیں مار مغز اس کا
سوا تیرے خدا کوئی کہا سکتا ہے کیا قدرت
نکالے لکڑیوں سے تو نے جس جس لطف کے میوے
کوئی پیڑوں میں یہ پیڑے لگا سکتا ہے کیا قدرت
ترے ہی خوان نعمت سے ہے سب کی پرورش ورنہ
کوئی چیونٹی سے ہاتھی تک کھلا سکتا ہے کیا قدرت
ہماری زندگانی کو بغیر از تیری قدرت کے
کوئی پانی کو پانی کر بہا سکتا ہے کیا قدرت
ترے حسن تجلی کا جہاں ذرہ جھمک جاوے
تو پھر موسیٰ کوئی واں تاب لا سکتا ہے کیا قدرت
دم عیسیٰ میں وہ تاثیر تھی تیری ہی قدرت کی
وگرنہ کوئی مردے کو جلا سکتا ہے کیا قدرت
تو وہ محبوب چنچل ہے کہ بار ناز کو تیرے
بغیر از مصطفی کوئی اٹھا سکتا ہے کیا قدرت
نظیرؔ اب طبع پر جب تک نہ فیضان الٰہی ہو
کوئی یہ لفظ یہ مضموں بنا سکتا ہے کیا قدرت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |