تری قدرت کی قدرت کون پا سکتا ہے کیا قدرت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری قدرت کی قدرت کون پا سکتا ہے کیا قدرت
by نظیر اکبر آبادی

تری قدرت کی قدرت کون پا سکتا ہے کیا قدرت
ترے آگے کوئی قادر کہا سکتا ہے کیا قدرت

تو وہ یکتائے مطلق ہے کہ یکتائی میں اب تیری
کوئی شرک دوئی کا حرف لا سکتا ہے کیا قدرت

زمیں سے آسماں تک تو نے جو جو رنگ رنگے ہیں
یہ رنگ آمیزیاں کوئی دکھا سکتا ہے کیا قدرت

ہزاروں گل ہزاروں گل بدن تو نے بنا ڈالے
کوئی مٹی سے ایسے گل کھلا سکتا ہے کیا قدرت

ہوئے ہیں نور سے جن کے زمین و آسماں پیدا
کوئی یہ چاند یہ سورج بنا سکتا ہے کیا قدرت

ہوا کے فرق پر کوئی بنا کر ابر کا خیمہ
طنابیں تار باراں کی لگا سکتا ہے کیا قدرت

جم و اسکندر و دارا و کیکاؤس و کیخسرو
کوئی اس ڈھب کے دل بادل بنا سکتا ہے کیا قدرت

کیا نمرود نے گو کبر سے دعویٰ خدائی کا
کہیں اس کا یہ دعویٰ پیش جا سکتا ہے کیا قدرت

نکالا تیرے اک پشتے نے کفشیں مار مغز اس کا
سوا تیرے خدا کوئی کہا سکتا ہے کیا قدرت

نکالے لکڑیوں سے تو نے جس جس لطف کے میوے
کوئی پیڑوں میں یہ پیڑے لگا سکتا ہے کیا قدرت

ترے ہی خوان نعمت سے ہے سب کی پرورش ورنہ
کوئی چیونٹی سے ہاتھی تک کھلا سکتا ہے کیا قدرت

ہماری زندگانی کو بغیر از تیری قدرت کے
کوئی پانی کو پانی کر بہا سکتا ہے کیا قدرت

ترے حسن تجلی کا جہاں ذرہ جھمک جاوے
تو پھر موسیٰ کوئی واں تاب لا سکتا ہے کیا قدرت

دم عیسیٰ میں وہ تاثیر تھی تیری ہی قدرت کی
وگرنہ کوئی مردے کو جلا سکتا ہے کیا قدرت

تو وہ محبوب چنچل ہے کہ بار ناز کو تیرے
بغیر از مصطفی کوئی اٹھا سکتا ہے کیا قدرت

نظیرؔ اب طبع پر جب تک نہ فیضان الٰہی ہو
کوئی یہ لفظ یہ مضموں بنا سکتا ہے کیا قدرت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse