تری طہارت کو شیخ کہہ تو کہاں سے لائیں اک آب جو ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری طہارت کو شیخ کہہ تو کہاں سے لائیں اک آب جو ہم
by جوشش عظیم آبادی

تری طہارت کو شیخ کہہ تو کہاں سے لائیں اک آب جو ہم
طواف دل کا ہے قصد ہم کو کریں ہیں آنسو سے نت وضو ہم

بتنگ آئے ہیں زندگی سے رہیں گے خوف فنا میں کب تک
جو ہونی ہو سو شتاب ہووے کھڑے ہیں قاتل کے رو بہ رو ہم

رکھے تو جب تک جہاں میں یارب ترے کرم سے امید یہ ہے
رہے نہ مطلق تلاش دولت کریں نہ دنیا کی جستجو ہم

خزاں نے سب کی بہار کھو دی رہا نہ سنبل بچی نہ ریحاں
گلوں کو دیکھا ہوئے پریشاں چمن سے نکلے برنگ بو ہم

غم و الم نے تو کر رکھا ہے ہمارے چہرے کو زرد ؔجوشش
لہو کے آنسو اگر نہ روئیں نہ ہوں محبت میں سرخ رو ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse