تری زلف زنار کا تار ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری زلف زنار کا تار ہے
by سراج اورنگ آبادی

تری زلف زنار کا تار ہے
کہ جس تار میں دل گرفتار ہے

کرشمے کے لشکر میں وو شاہ حسن
صف خوب رویاں کا سردار ہے

تلطف سیں پوچھے گا کب درد دل
ستمگر ہے سرکش ہے عیار ہے

جسے دل خراشی نہیں عشق کی
طریق محبت میں بے کار ہے

سجن لطف کر نرگس باغ پر
تری چشم مے گوں کا بیمار ہے

شفا دے مجھے مرہم وصل سوں
جگر پر مرے ہجر کا وار ہے

شب ہجر میں گل بدن کے سراجؔ
نظر میں مری شمع جیوں خار ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse