تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
by حیدر علی آتش

تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا

رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا
گل لالہ کو شرمایا تو ہوتا

چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا

کہے جاتے وہ سنتے یا نہ سنتے
زباں تک حال دل آیا تو ہوتا

سمجھتا یا نہ اے آتشؔ سمجھتا
دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse