تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
by اکبر الہ آبادی
295375تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہےاکبر الہ آبادی

تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے

نہ کیوں کر بوئے خوں نامے سے آئے
اسی جلاد کا لکھا ہوا ہے

چلے دنیا سے جس کی یاد میں ہم
غضب ہے وہ ہمیں بھولا ہوا ہے

کہوں کیا حال اگلی عشرتوں کا
وہ تھا اک خواب جو بھولا ہوا ہے

جفا ہو یا وفا ہم سب میں خوش ہیں
کریں کیا اب تو دل اٹکا ہوا ہے

ہوئی ہے عشق ہی سے حسن کی قدر
ہمیں سے آپ کا شہرا ہوا ہے

بتوں پر رہتی ہے مائل ہمیشہ
طبیعت کو خدایا کیا ہوا ہے

پریشاں رہتے ہو دن رات اکبرؔ
یہ کس کی زلف کا سودا ہوا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse