تری تیغ ابرو کی ٹک سامنے کر دیکھیں تو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری تیغ ابرو کی ٹک سامنے کر دیکھیں تو
by مرزا اظفری

تری تیغ ابرو کی ٹک سامنے کر دیکھیں تو
بچے خورشید بھی رکھ منہ پہ سپر دیکھیں تو

میرے خورشید لقا دید کی ٹک رخصت دے
تیرے دیدار کو پھر ایک نظر دیکھیں تو

تیغ تولے ہوے کاندھے پہ جو آیا ہے سوار
او سجیلے مرے گھوڑے سے اتر دیکھیں تو

مر گیا جو اسے کہتے ہیں ہوا آج وصال
جی رچا زیست سے اس ہجر میں مر دیکھیں تو

بہہ چکا خانۂ دل آنکھ تک آ پہنچی سیل
روئے جا اور بھی اے دیدۂ تر دیکھیں تو

آ کے آنکھوں کا شبستاں مرا روشن کر دے
وہ دن آتا ہے کب اے نور بصر دیکھیں تو

ہے مثل غصہ اتر جاتا ہے پاؤں پہ گرے
قدموں پر اس کے بھلا سر کو بھی دھر دیکھیں تو

دن بہت بیت گئے گلیاں ہیں سونی تجھ بن
جانی بن ٹھن ذری آ جاؤ ادھر دیکھیں تو

سب کہیں گزری پہ گزری نہ کوئے دلبر میں
رہے جاں اظفریؔ اس سے بھی گزر دیکھیں تو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse