ترک جس دن سے کیا ہم نے شکیبائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترک جس دن سے کیا ہم نے شکیبائی کا
by رجب علی بیگ سرور

ترک جس دن سے کیا ہم نے شکیبائی کا
جا بجا شہر میں چرچا ہوا رسوائی کا

غیر داغ دل صد چاک نہ مونس نہ رفیق
زور عالم پہ ہے عالم مری تنہائی کا

پہروں ہی اپنے تئیں آپ ہوں بھولا رہتا
دھیان آتا ہے جب اپنے مجھے ہرجائی کا

زلزلہ گور میں مجنوں کی پڑا رہتا ہے
اپنا یہ شور ہے اب بادیہ پیمائی کا

جلوہ اس کا ہے ہر اک گھر میں بسان خورشید
فرق ہے اپنی فقط آہ یہ بینائی کا

کلمۂ حق بھی دم نزع نہ نکلا منہ سے
شیخ کو دھیان تھا ایسا بت ترسائی کا

کشش نالہ اسے کہتے ہیں اب وہ جو سرورؔ
محو نظارہ ہوا اپنے تماشائی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse