ترچھی نظر سے دیکھیے تلوار چل گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترچھی نظر سے دیکھیے تلوار چل گئی
by منیرؔ شکوہ آبادی

ترچھی نظر سے دیکھیے تلوار چل گئی
زخم جگر کی راہ سے حسرت نکل گئی

مل دل سے وصل میں تری محرم نکل گئی
چٹکی سے اے پری بنت انگیا کی مل گئی

بلبل کو مست کرتی ہے خوشبو لباس کی
شاید نسیم عطر بہار آج مل گئی

کنگھی سے اتنی دیر میں سلجھائی ایک زلف
اے جان آدھی رات بکھیڑے میں ڈھل گئی

مضمون تیری زرد حنا کا نہ بندھ سکا
منہد کی مچھلی ہاتھ میں آ کر نکل گئی

اتنا نہ کیجئے گل رخسار پر غرور
دو دن کی یہ بہار ہے آج آئی کل گئی

انداز تیرے حال کی سیکھی جو رات کو
تیغ ہلال کبک پر اے ماہ چل گئی

سر سے ہمارے پھر گئی شمشیر برق دم
اے جان گرتے گرتے یہ بجلی سنبھل گئی

کیا صاف گال ہیں کہ نہ ٹھہرے نظر کہیں
بے ساختہ نگاہ ہماری پھسل گئی

رنگ وفا اڑا دل سخت رقیب سے
بوتل میں یہ شراب نہ ٹھہری ابل گئی

کیوں چشم مست ہو گئے جام شراب آج
کیا ہو گیا جو آنکھ تمہاری بدل گئی

مضمون گرم پر میرے طعنہ نہ کر سکے
انگشت اعتراض حریفوں کی چل گئی

مٹی مری خراب ہوئی راہ عشق میں
برباد کر کے ان کی سواری نکل گئی

مجھ سے ہی پوچھتا ہے مرا نامہ بر پتا
ایسی فراق یار میں صورت بدل گئی

اے شوخ تیری دست درازی سے نشہ میں
گردوں تک آفتاب کی پگڑی اچھل گئی

دے کر مئے دوآتشہ اس سے لپٹ گیا
دو آنچوں میں رقیب کی کیا دال گل گئی

جنت سے بہرہ ور ہوں ظفر گنج اے منیرؔ
جو جو تھی آرزو مرے دل میں نکل گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse