ترقی یافتہ قبرستان

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترقی یافتہ قبرستان  (1942) 
by سعادت حسن منٹو

انگریزی تہذیب و تمدن کی خوبیاں کہاں تک گنوائی جائیں۔ اس نے ہم غیر مہذب ہندوستانیوں کو کیا کچھ عطا نہیں کیا۔ ہماری گنوار عورتوں کو اپنے نسوانی خطوط کی نمائش کے نت نئے طریقے بتائے۔ جسمانی خوبیوں کا مظاہرہ کرنے کے لئے بغیر آستینوں کے بلاؤز پہننے سکھائے۔ مسی کا جل چھین کر ان کے سنگار دانوں میں لپ اسٹک، روج، پاؤڈر اور افزائش حسن کی اور چیزیں بھر دیں۔ پہلے ہمارے یہاں موچنے صرف ناک یا موچھوں کے بال چننے کے کام آتے تھے، مگر تہذیب فرنگ نے ہماری عورتوں کو ان سے اپنی بھوؤں کے بال چننا سکھایا۔ یہ تہذیب ہی کی برکت ہے کہ اب جو عورت چاہے لائسنس لے کر کھلے بندوں اپنے جسم کی تجارت کر سکتی ہے، ترقی یافتہ مردوں اور عورتوں کے لئے سول میرج کا قانون موجود ہے، جب چاہیئے شادی کر لیجئے اور جب چا ہیئے طلاق حاصل کرلیجئے۔ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری مگر رنگ چوکھا آتا ہے۔ ناچ گھر موجود ہیں، جہاں آپ عورتوں کے ساتھ سینے سے سینہ ملا کر کئی قسم کے ناچوں میں شریک ہو سکتے ہیں۔ کلب گھر موجود ہیں۔ جہاں آپ بڑے مہذب طریقے سے اپنی ساری دولت جوئے میں ہار سکتے ہیں۔ مجال ہے کہ آپ کبھی قانونی گرفت میں آئیں۔ شراب خانے موجود ہیں جہاں آپ غم غلط کر سکتے ہیں۔ انگریزی تہذیب و تمدن نے ہمارے وطن کو بہت ترقی یافتہ بنا دیا ہے۔ اب ہماری عورتیں پتلونیں پہن کر بازار میں چلتی پھرتی ہیں۔ کچھ ایسی بھی ہیں، جو قریب قریب کچھ بھی نہیں پہنتیں لیکن پھر بھی آزادانہ گھوم پھر سکتی ہیں۔۔۔ ہمارا ملک بہت ترقی یافتہ ہو گیا ہے، کیونکہ اب یہاں ’’ننگا کلب‘‘ کھولنے کی بھی تجویز ہو رہی ہے۔ وہ لوگ سر پھرے ہیں جو اپنے محسن انگریزوں سے کہتے ہیں کہ ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں، اگر یہ ہندوستان چھوڑ کر چلے گئے تو ہمارے یہاں ’’ننگا کلب‘‘ کون جاری کرے گا۔ یہ جو رقص خانے ہیں، ان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ ہم عورتوں کے ساتھ سینے سے سینہ ملا کر کیسے ناچ سکیں گے۔ ہمارے چکلے کیا ویران نہیں ہو جائیں گے۔ ہمیں ایک دوسرے سے لڑنا کون سکھائے گا۔ مانچسٹر سے جو کپڑے اب ہماری کپاس سے تیار ہوکر آتے ہیں پھر کون تیار کرے گا۔ یہ اچھے اچھے لذیذ بسکٹ جو ہم کھاتے ہیں ہمیں کون دے گا۔ جو ترقی ہمیں اور ہمارے ہندوستان کو انگریزوں کے عہد میں نصیب ہوئی ہے اور کسی کے عہد میں نصیب نہیں ہو سکتی، اگر ہم آزاد بھی ہو جائیں تو ہمیں حکومت کرنے کی وہ چالیں نہیں آ سکتیں جو ہمارے ان حاکموں کو آتی ہیں۔ ان حاکموں کی، جن کے عہد میں نہ صرف ہمارے ہوٹلوں، کلبوں، رقص خانوں اور سینماؤں کو بلکہ ہمارے قبرستانوں کو بھی کافی ترقی ہوئی ہے۔ غیرترقی یافتہ قبرستانوں میں مردے اٹھا کر گاڑ دیے جاتے ہیں، جیسے وہ کوئی قدر و قیمت ہی نہیں رکھتے، لیکن ترقی یافتہ قبرستانوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ مجھے اس ترقی کا احساس اس وقت ہوا جب بمبئی میں میری والدہ کا انتقال ہوا۔ میں چھوٹے چھوٹے نسبتاً غیر مہذب شہروں میں رہنے کا عادی تھا۔ مجھے کیا معلوم کہ بڑے شہروں میں مردوں پر بھی حکومت کی طرف سے پابندیاں عائد ہیں۔ والدہ کی لاش دوسرے کمرے میں پڑی تھی۔ میں غم کا مارا سر نیہوڑائے ایک صوفے پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اتنے میں ایک صاحب نے جو عرصے سے بمبئی میں رہتے تھے مجھ سے کہا، ’’بھئی اب تم لوگوں کو کچھ کفن دفن کی فکر کرنی چاہیئے۔‘‘ میں نے کہا، ’’سو یہ آپ ہی کریں گے، کیونکہ میں یہاں نووارد ہوں۔‘‘ انہوں نے جواب دیا، ’’میں سب کچھ کردوں گا مگر پہلے تمہیں کسی کے ہاتھ اطلاع بھجوا دینی چاہیئے کہ تمہاری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘ ’’کس کو؟‘‘ ’’یہاں پاس ہی میونسپلٹی کا دفتر ہے اس کو اطلاع دینی بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک وہاں سے سرٹیفیکیٹ نہیں ملے گا قبرستان میں دفنانے کی اجازت نہیں ملے گی۔‘‘ اس دفتر کو اطلاع بھیج دی گئی۔ وہاں سے ایک آدمی آیا جس نے طرح طرح کے سوال کرنے شروع کئے، ’’کیا بیماری تھی، کتنے عرصے سے مرحومہ بیمار تھی، کس ڈاکٹر کا علاج ہو رہا تھا؟‘‘ حقیقت یہ تھی کہ میری عدم موجودگی میں ہارٹ فیل ہو جانے کی وجہ سے میری والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی کی زیرعلاج نہیں تھیں اور نہ مدت سے بیمار ہی تھیں، چنانچہ میں نے اس آدمی سے جو سچی بات تھی کہہ دی، اس کا اطمینان نہ ہوا اور کہنے لگا، ’’آپ کو ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ دکھانا پڑے گا کہ موت واقعی ہارٹ فیل ہو جانے کی وجہ سے ہوئی ہے۔‘‘ میں سٹپٹا گیا کہ ڈاکٹری سرٹیفیکٹ کہاں سے حاصل کروں، چنانچہ کچھ سخت کلمے میرے منہ سے نکل گئے، لیکن میرے وہ دوست جو ایک عرصے سے بمبئی میں قیام پذیر تھے، اٹھے اور اس آدمی کو ایک طرف لے گئے، کچھ دیر اس سے باتیں کرتے رہے، پھر آئے اور میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگے، ’’یہ تو بالکل بیوقوف ہے، اس کو یہاں کی باتوں کا کچھ علم نہیں۔‘‘ پھر انہوں نے میری جیب سے دو روپے نکال کر اس آدمی کو دیے تو ایک دم ٹھیک ہو گیا اور کہنے لگا، ’’اب آپ ایسا کیجئے کہ دواؤں کی چند خالی بوتلیں مجھے دے دیجئے تاکہ بیماری کا کچھ تو ثبوت ہو جائے، پرانے نسخے وغیرہ پڑے ہوں تو وہ بھی مجھے دے دیجئے۔‘‘ اس نے اس قسم کی اور باتیں کیں جن کو سن کر مجھے تھوڑی دیر کے لئے ایسا محسوس ہوا کہ میں اپنی والدہ کا قاتل ہوں اور یہ آدمی جو میرے سامنے بیٹھا ہے مجھ پر ترس کھا کر اس راز کو اپنے تک ہی رکھنا چاہتا ہے اور مجھے ایسی ترکیبیں بتا رہا ہے جس سے قتل کے نشانات مٹ جائیں۔ اس وقت جی میں آئی تھی کہ دھکے دے کر اس کو باہر نکال دوں اور گھر میں جتنی خالی بوتلیں پڑی ہیں، ان سب کو ایک ایک کر کے اس کے بے مغز سر پر پھوڑتا چلاجاؤں لیکن اس تہذیب و تمدن کا بھلا ہو کہ میں خاموش رہا اور اندر سے کچھ بوتلیں نکلوا کر اس کے حوالے کر دیں۔ دو روپے رشوت کے طور پر ادا کرنے کے بعد میونسپلٹی کا سرٹیفیکٹ حاصل کر لیا گیا تھا۔ اب قبرستان کا دروازہ ہم پر کھلا تھا۔ لوہے کے بہت بڑے دروازے کے پاس ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جیسا کہ سینما کے ساتھ بکنگ آفس ہوتا ہے، اس کی کھڑکی میں سے ایک آدمی نے جھانک کر اندر جاتے ہوئے جنازے کو دیکھا اور کچھ کہنے ہی کو تھا کہ میرے دوست نے وہ پرچی جو میونسپلٹی کے دفتر سے ملی تھی، اس کے حوالے کر دی۔ قبرستان کے منیجر کو اطمینان ہو گیا کہ جنازہ بغیر ٹکٹ کے اندر داخل نہیں ہوا۔ بڑا خوبصورت قبرستان تھا۔ ایک جگہ درختوں کا جھنڈ تھا جس کے سائے تلے کئی پختہ قبریں لیٹی ہوئی تھیں۔ ان قبروں کے آس پاس موتیا، چنبیلی اور گلاب کی جھاڑیاں اگ رہی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ قبرستان کا سب سے اونچا درجہ ہے جہاں ہائی کلاس آدمی اپنے عزیزوں کو دفن کرتے ہیں۔ ایک قبر کے دام مبلغ تین سو روپے ادا کرنے پڑے ہیں۔ یہ رقم دینے کے بعد قبرستان کی اس ٹھنڈی اور ہوادار جگہ میں آپ اپنی یا اپنے کسی عزیز کی پختہ قبر بنا سکتے ہیں، اس کی دیکھ بھال کرنا ہو تو آپ کو چھ روپے سالانہ اور دینا پڑیں گے، یہ رقم لے کر منیجر صاحب اس بات کا خیال رکھیں گے کہ قبر ٹھیک حالت میں رہے۔ وہ لوگ جو تین سو روپیہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کی قبریں تین یا چار سال کے بعد کھود کھاد کر مٹا دی جاتی ہیں اور ان کی جگہ دوسرے مردے گاڑ دیے جاتے ہیں۔ ان قبروں کو درختوں کی چھاؤں اور موتیا چنبیلی کی خوشبو نصیب نہیں ہوتی۔ یہاں دفناتے وقت مٹی کے ساتھ ایک خاص قسم کا مصالحہ ملا دیا جاتا ہے تاکہ لاش اور اس کی ہڈیاں جلدی گل سڑ جائیں۔ چونکہ ایک ہی شکل صورت کی قبریں قطار اندر قطار چلی گئی ہیں، اس لئے ہر قبر پر نمبر لگا دیا گیا ہے تاکہ پہچاننے میں آسانی ہو۔ یہ نمبر چار آنے میں ملتا ہے۔ آج کل اچھے سینماؤں میں بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ نمبر لگے ٹکٹ دیے جاتے ہیں تاکہ ہال میں گڑ بڑ نہ ہو اور آدمی اس نمبر کی سیٹ پر بیٹھے جس نمبر کا اس کے پاس ٹکٹ ہے۔ جب مردہ دفن کر دیا جاتا ہے تو قبرستان کا مہتمم ایک خاص نمبر جو لوہے کی تختی پر لکھا ہوتا ہے، قبر کے پہلو میں گاڑ دیتا ہے، یہ اس وقت تک گڑا رہتا ہے جب تک قبر کسی دوسرے مردے کے لئے خالی نہیں کی جاتی۔ نمبر ملنے سے کتنی آسانی ہو جاتی ہے یعنی آپ اپنی نوٹ بک میں اپنے عزیزوں کی قبروں کا نمبر بھی درج کر سکتے ہیں۔ جوتے کا نمبر، پانچجراب کا نمبر، ساڑھے نوٹیلی فون کا نمبر، ۴۴۴۵۷بیمہ کی پالیسی کا نمبر، ۲۲۵۶۸۹والدہ کی قبر کا نمبر، ۴۸۱۷اور اگر زمانہ زیادہ ترقی کر گیا تو پیدا ہوتے ہی آپ کو اپنی قبر کا نمبر مل جایا کرے گا۔ قبرستان میں داخل ہوتے ہی ایک خوبصورت مسجد دکھائی دی جس کے باہر ایک بہت بڑے بورڈ پر ’’ضروری اطلاع‘‘ کے عنوان سے یہ عبارت لکھی ہوئی تھی، ’’اگر کوئی شخص اپنے وارث کا کچا اوٹا بنانا چاہے تو وہ گور کھو دو بنا دیں اور کوئی نہیں بنا سکتا۔ بڑی قبر بنانے کے دو روپیہ چار آنے، جس میں سوا روپیہ گور کھودو کی مزدوری اور ایک روپیہ قبرستان کا حق، چھوٹی قبر کا سوا روپیہ جس میں گور کھودو کی مزدوری بارہ آنے اور قبرستان کا حق آٹھ آنے، اگر نہ دیں گے تو ان کا اوٹا نکال دیا جائے گا، قبرستان میں کسی کو رہنے کی اجازت نہیں۔ ہاں میت کے ساتھ آویں اور اپنا توشہ لے کر باہر چلے جاویں۔ خواہ مرد ہو یا عورت۔ اگر کوئی میت باہر سے بغیر غسل کے آوے اور اس کے ساتھ غسل دینے والا بھی ہو تو اس سے قبرستان کا حق چار آنے لیا جائے گا۔ جس میت کو غسل رات کو دیا جائے گا اس سے دو آنہ روشنی کا لیا جائے گا۔ کوئی شخص قبرستان میں دنگا فساد نہ کرے، اگر کرے گا تو اس کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ قبر کے وارث اپنے اوٹے پر پانی ڈالنے اور درخت لگانے کا کام گور کھودوں کے سپرد کر دیں تو ان کو چار آنہ ماہوار دینا ہوگا۔ جو صاحب نہ دیں گے ان کی قبر پر گور کھودو نہ پانی ڈالیں گے اور نہ درخت اگائیں گے۔ (منیجنگ ٹرسٹی) سینماؤں کے اشتہار اور قبرستان کے اس اعلان میں ایک گونہ مماثلت ہے کیونکہ وہاں بھی لکھا ہوتا ہے، ’’شراب پی کر آنے والوں اور دنگا فساد کرنے والوں کو حوالہ پولیس کر دیا جائے گا۔‘‘ بہت ممکن ہے کہ زمانے کی ترقی کے ساتھ اس اعلان میں ترمیمیں ہوتی جائیں اور کبھی ایسے الفاظ کا بھی اضافہ ہو جائے، بھونچال آنے یا بمباری کی صورت میں منتظم قبروں کے دام واپس نہیں کرے گا۔ جو صاحب اپنے عزیزواقارب کی قبر پر ائیر ریڈ شیلٹر بنوانا چاہیں، انہیں ڈھائی سو روپیہ زائد ادا کرنا پڑے گا، لیکن اس صورت میں بھی قبر کی حفاظت کی ذمہ داری منتظم پر عائد نہ ہوگی۔ قبر کو ائیرکنڈیشنڈ بنانے کے لئے چھوٹے چھوٹے پلانٹ دستیاب ہو سکتے ہیں، ہر ماہ جتنی بجلی خرچ ہو گی اس کا بل قبر کے وارث کو ادا کرنا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ایک بورڈ اور دکھائی دیا جس پر غسل وغیرہ کے نرخ مندرج تھے۔ ملاحظہ ہو، نماز جنازہ اور تلقین پڑھائی۔ ۶/غسل بڑی میت ایک روپیہ۔ ۴/غسل چھوٹی میت۔ ۱۴/میت کے لئےپانی گرم کرنے کی لکڑی۔ ۴/پانی بھرنے اور گرم کرنے کی مزدوری۔ ۲/بڑی میت کے برگے، فی برگہ ۲/۱-۲/چھوٹی میت کے برگے، فی برگہ ۴/۳-۱/نوٹ، برگہ لکڑی کے اس تختے کو کہتے ہیں جو قبر کے گڑھے میں میت کے اوپر رکھے جاتے ہیں تاکہ مٹی نیچے نہ دب جائے۔ کسی اچھے سیلون میں جایئے تو وہاں بھی گاہکوں کی سہولت کے لئے اس قسم کے بورڈ پر آپ کو مختلف چیزوں کے نرخ نظر آئیں گے۔ مردوں کی بال کٹوائی۔ ۸بچوں کی۔ ۴/عورتوں کی۔ ایک روپیہبچیوں کی۔ ۸/ڈاڑھی منڈائی۔ ۲/بال کٹوائی اور ڈاڑھی منڈائی۔ ۹/شامپو۔ ۲/بال کٹوائی، داڑھی منڈائی اور شامپو۔ ۱۰/اگر بال کٹوائے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ داڑھی بھی منڈائی جائے، تو ایک دو آنے کی رعایت ہو جاتی ہے۔ بہت ممکن ہے آگے چل کر قبرستان والے بھی کچھ رعایت اپنے گاہکوں کو دے دیا کریں، کچھ اس قسم کا اعلان کر دیا جائے، ’’جو صاحب سال میں دو بڑی قبریں کھدوائیں گے ان کو ایک چھوٹی قبر مفت کھود کر دی جائے گی۔‘‘ یا، ’’جو حضرات بیک وقت دو قبریں کھدوائیں گے، ان کو گلاب کی دو قلمیں مفت دی جائیں گی۔‘‘ یا، ’’جو اصحاب کفن دفن کا سب سامان ہمارے ہاں سے خریدیں گے ان کو قبر کا نمبر ایک خوبصورت بلے پر تلے سے کڑھا ہوا مفت ملے گا۔‘‘ یہ بھی بہت ممکن ہے کہ آنے والے زمانے میں جب کہ ہمارے قبرستان اور زیادہ ترقی یافتہ ہو جائیں گے، قبروں کی ایڈوانس بکنگ ہوا کرے گی، یعنی ہم لوگ اپنے معمر عزیزوں کے لئے دو دو تین تین برس پہلے ہی کسی اچھے اور فیشن ایبل قبرستان میں سیٹ بک کرا لیا کریں گے تاکہ عین وقت پر تردد کا سامنا نہ کرنا پڑے، اس وقت مردوں کو کفنانے اور دفنانے کا انتظام بھی جدید طریقوں پر ہوگا، چنانچہ بہت ممکن ہے کہ گورکنوں کی طرف سے اخباروں میں اس قسم کے اشتہار چھپا کریں۔

عیسیٰ جی موسیٰ جی اینڈ سنز

کفن دفن کے ماہرین، میتوں کو جدید آلات کی مدد سے بغیر ہاتھ لگائے غسل دیا جاتا ہے، اور بغیر ہاتھ لگائے کفن پہنایا جاتا ہے۔ قبرستانوں کی طرف سے بھی ایسے ہی اشتہار شائع ہوں تو کوئی تعجب نہ ہوگا، شہر کا سب سے جدید قبرستان جہاں مردے اسی طرح قبروں میں سوتے ہیں جس طرح آپ اپنے پرتکلف بستروں میں سوتے ہیں۔ بمبئی شہر میں اس وقت ایسی کئی انجمنیں موجود ہیں جو میتوں کے کفن دفن کا انتظام کرتی ہیں۔ آپ کو تکلیف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان انجمنوں میں سے کسی ایک کو اطلاع بھیج دیجئے۔ میت کو غسل دے دلا کر، کفن وغیرہ پہنا کر اس انجمن کے آدمی آپ کے گھر سے جنازے کو اٹھا کر قبرستان لے جائیں گے اور وہاں دفن کر دیں گے۔ کانوں کان خبر نہ ہوگی، جب سارا کام آپ کے اطمینان کے مطابق ہو جائے گا تو یہ انجمن آپ کو اپنا بل پیش کر دے گی۔ آپ بہت مصروف آدمی ہیں۔ اتفاق سے آپ کے نوکر کو موت آ دبوچتی ہے۔ آپ کو اس کی موت کا بہت افسوس ہے مگر آپ کو ساحل سمندر پر اپنے چند ایسے دوستوں کے ہمراہ پکنک پر جانا ہے، جن سے آپ کے کاروباری مراسم ہیں۔ اس لئے آپ فوراً کسی انجمن کے مہتمم کو بلائیں گے اور فیس وغیرہ طے کر کے اس کے کفن دفن کا انتظام کر دیں گے۔ جنازے کے ساتھ انجمن کے پیشہ ور کندھا دینے والے ہوں گے جو آپ کے مکان سے لے کر بلند آواز میں قرآن شریف کی آیت پڑھتے جائیں گے۔ وہاں نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ جس کی اجرت بل میں شامل ہوگی اور ایک بڑی قبر میں جس کی قیمت دو روپیہ چار آنے ہوتی ہے، آپ کا وفادار نوکر دفن کر دیا جائے گا۔ ساحل سمندر پر آپ بڑے اطمینان سے اپنے دوستوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے رہیں گے اور یہاں بھی ہنستے کھیلتے آپ کے نوکر کی قبر تیار ہو جائے گی اور اگر آپ نے انعام دینے کا وعدہ کیا ہوگا تو اس پر انجمن کے آدمی پھولوں کی ایک چادر بھی چڑھا دیں گے۔ چند روز ہوئے مجھے پھر اسی قبرستان میں جانے کا اتفاق ہوا۔ نوٹس بورڈ پر ایک اعلان عام لکھا تھا، ’’مورخہ ۸ جون ۱۹۴۲ء سے بوجہ گرانی قبر کی کھدائی کی مزدوری میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بڑی قبر کی کھدائی ایک روپیہ چار آنہ۔ چھوٹی قبر کی کھدائی چودہ آنے۔‘‘ جنگ نے قبریں بھی مہنگی کر دی ہیں۔

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse