ترغیب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترغیب
by میراجی

رسیلے جرائم کی خوشبو
مرے ذہن میں آ رہی ہے
رسیلے جرائم کی خوشبو
مجھے حد ادراک سے دور لے جا رہی ہے

جوانی کا خوں ہے
بہاریں ہیں موسم زمیں پر!
پسند آج مجھ کو جنوں ہے
نگاہوں میں ہے میرے نشے کی الجھن
کہ چھایا ہے ترغیب کا جال ہر اک حسیں پر
رسیلے جرائم کی خوشبو مجھے آج للچا رہی ہے!
قوانین اخلاق کے سارے بندھن شکستہ نظر آ رہے ہیں
حسین اور ممنوع جھرمٹ مرے دل کو پھسلا رہے ہیں
یہ ملبوس ریشم کے اور ان کی لرزش
یہ غازہ..... یہ انجن
نسائی فسوں کی ہر اک موہنی آج کرتی ہے سازش
مرے دل کو بہکا رہی ہے!
مرے ذہن میں آ رہی ہے
رسیلے جرائم کی خوشبو!

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse