ترا مجنوں ہوں صحرا کی قسم ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترا مجنوں ہوں صحرا کی قسم ہے
by ولی دکنی

ترا مجنوں ہوں صحرا کی قسم ہے
طلب میں ہوں تمنا کی قسم ہے

سراپا ناز ہے تو اے پری رو
مجھے تیرے سراپا کی قسم ہے

دیا حق حسن بالا دست تجکوں
مجھے تجھ سرو بالا کی قسم ہے

کیا تجھ زلف نے جگ کوں دوانا
تری زلفاں کے سودا کی قسم ہے

دو رنگی ترک کر ہر اک سے مت مل
تجھے تجھ قد رعنا کی قسم ہے

کیا تجھ عشق نے عالم کوں مجنوں
مجھے تجھ رشک لیلیٰ کی قسم ہے

ولیؔ مشتاق ہے تیری نگہ کا
مجھے تجھ چشم شہلا کی قسم ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse