ترا بے مدعا مانگے دعا کیا
ترا بے مدعا مانگے دعا کیا
مرض ہے تندرستی میں دوا کیا
کہیں کیا کیا کیا ہے ہم نے کیا کیا
تجھے اے بے وفا قدر وفا کیا
تبسم ہو جواب مدعا کیا
کہا کیا آپ نے میں نے سنا کیا
کہو آخر ذرا میں بھی تو سن لوں
مری نسبت سنا ہے تم نے کیا کیا
تمہاری مہربانی ہے تو سب ہے
مرا ارمان میرا مدعا کیا
نہ دیکھیں وہ تو اپنا گریہ بے سود
نہ پوچھیں وہ تو اپنا مدعا کیا
چلا تو بھی جو اے دل لینے والے
ہمارے پاس پھر باقی رہا کیا
ادائیں تم کو بخشیں ہم کو آنکھیں
کرے گا اور بندوں سے خدا کیا
جو مجھ کو آپ ہی در سے اٹھا دیں
کوئی رکھے کسی کا آسرا کیا
سمجھتے ہو جو اپنے آپ کو تم
اسے سمجھے گا کوئی دوسرا کیا
کھلاتے ہو قسم ضبط فغاں پر
ذرا سوچو مرض کیا ہے دوا کیا
مرے گھر کو تم اپنا گھر نہ سمجھو
تو ایسی میہمانی کا مزا کیا
صفیؔ خود بینی ٹھہرے جن کا شیوہ
نظر آئے گا ان کو دوسرا کیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |