ترا بے مدعا مانگے دعا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترا بے مدعا مانگے دعا کیا
by صفی اورنگ آبادی

ترا بے مدعا مانگے دعا کیا
مرض ہے تندرستی میں دوا کیا

کہیں کیا کیا کیا ہے ہم نے کیا کیا
تجھے اے بے وفا قدر وفا کیا

تبسم ہو جواب مدعا کیا
کہا کیا آپ نے میں نے سنا کیا

کہو آخر ذرا میں بھی تو سن لوں
مری نسبت سنا ہے تم نے کیا کیا

تمہاری مہربانی ہے تو سب ہے
مرا ارمان میرا مدعا کیا

نہ دیکھیں وہ تو اپنا گریہ بے سود
نہ پوچھیں وہ تو اپنا مدعا کیا

چلا تو بھی جو اے دل لینے والے
ہمارے پاس پھر باقی رہا کیا

ادائیں تم کو بخشیں ہم کو آنکھیں
کرے گا اور بندوں سے خدا کیا

جو مجھ کو آپ ہی در سے اٹھا دیں
کوئی رکھے کسی کا آسرا کیا

سمجھتے ہو جو اپنے آپ کو تم
اسے سمجھے گا کوئی دوسرا کیا

کھلاتے ہو قسم ضبط فغاں پر
ذرا سوچو مرض کیا ہے دوا کیا

مرے گھر کو تم اپنا گھر نہ سمجھو
تو ایسی میہمانی کا مزا کیا

صفیؔ خود بینی ٹھہرے جن کا شیوہ
نظر آئے گا ان کو دوسرا کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse