تدبیر ہمارے ملنے کی جس وقت کوئی ٹھہراؤ گے تم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تدبیر ہمارے ملنے کی جس وقت کوئی ٹھہراؤ گے تم
by نظیر اکبر آبادی

تدبیر ہمارے ملنے کی جس وقت کوئی ٹھہراؤ گے تم
ہم اور چھپیں گے یہاں تک جی جو خوب ہی پھر گھبراؤگے تم

بیزار کرو گے دل ہم سے یا منت در سے روکو گے
وہ دل تو ہمارے بس میں ہے کس طور اسے سمجھاؤ گے تم

گر جادو منتر سیکھو گے تو سحر ہماری نظروں کا
اس کوچے میں بٹھلاویں گے پھر کہیے کیوں کر آؤ گے تم

گر چھپ کر دیکھنے آؤ گے ہم اپنے بالا خانے کے
سب پردے چھوڑے رکھیں گے پھر کیوں کر دیکھنے پاؤ گے تم

گر جادو منتر سیکھو گے تو سحر ہماری نظروں کا
تاثیر کو اس کی کھو دے گا کچھ پیش نہیں لے جاؤ گے تم

تصویر اگر منگواؤ گے تو دیکھ ہماری صورت کو
حیران مصور ہووے گا پھر رنگ کہو کیا لاؤ گے تم

جو وقت نظیرؔ ان باتوں کی ہم خوب کریں گے ہشیاری
جو حرف زباں پر لاؤ گے تم پھر کیوں کر دکھلاؤ گے تم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse