تحفۃ الہند
مسلمانوں کی توجہ برج بھاشا پر، برج بھاشا کا فن معانی و بیان یاد ہوگا کہ ہمارے ایک معزز ہندو دوست نے اردوئے معلیٰ میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس پرمعترضانہ افسوس ظاہر کیا تھا کہ مسلمانوں نے ۶ سو برس تک اس ملک میں حاکم رہ کر کبھی ملکی زبان کی طرف توجہ نہ کی۔ ہم نے اس کا جواب الندوہ میں بہ تفصیل دو نمبروں میں لکھا تھا، جس میں بتایا تھا کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کی زبان کے ساتھ کس قدر اعتنا کیا، اور خود برج بھاشا میں کس درجے کی قابلیت پیدا کی۔ یہ مضمون بھی اس سلسلے کا گویا تتمہ ہے۔ تحفۃ الہند جو ہمارے مضمون کا عنوان ہے، ایک کتاب کا نام ہے جو اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تصنیف ہوئی، مصنف کا نام میرزا خان بن فخر الدین محمد ہے۔ دیباچے میں لکھا ہے کہ میں نے یہ کتاب شہنشاہ عالمگیر کے زمانے میں شہزادہ اعظم شاہ کے مطالعے کے لئے تصنیف کی۔ کتاب کا موضوع ہندوؤں کا فن بلاغت اور عروض و قافیہ وغیرہ ہے، اس میں ۷ باب ہیں۔
(۱) پنگل، یعنی علم عروض (۲) تک، یعنی قافیہ (۳) النکار، یعنی علم بدیع (۴) سر نگار رس، یعنی عشق و محبت (۵) سامدرک، یعنی علم قیافہ (۶) کوک، یعنی علم النساء (۷) لغات ہندی۔ اس میں برج بھاشا کے ضروری کثیر الاستعمال الفاظ لکھے ہیں اوران کے معنی بتائے ہیں۔ یہ کتاب عالمگیر کے زمانے میں تصنیف ہوئی ہے اوراس کے سب سے چہیتے اور منظور نظر فرزند کے لئے تصنیف ہوئی ہے، عالمگیر کی نسبت اس کے مخالفوں کا دعویٰ ہے کہ وہ تعصب کا دیوتا تھا اور اس نے ہندوؤں کی نہ صرف عمارات، بلکہ ان کے لٹریچر کو بھی مٹا دینا چاہا تھا اور اس لئے ان کی تمام درسگاہیں اور پاٹ شالے بند کرا دیے تھے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تاریخ کا مسلمہ مسئلہ ہے کہ عالمگیر ملک کے ایک ایک جزئی واقعے سے اس قدر واقفیت رکھتا تھا کہ کسی حصہ ملک کا ادنیٰ سا واقعہ بھی اس کی نگاہ تجسس ے مخفی نہیں رہ سکتا تھا۔ باوجود اس کے برج بھاشا کو جس قدر اس کے زمانے میں ترقی ہوئی، مسلمانوں نے جس قدر اس کے زمانے میں ہندی کتابوں کے ترجمے کئے اور خود جس قدر برج بھاشا میں نظم و نثر لکھی، کسی زمانے میں اس قدر ہندی کی طرف التفات نہیں ظاہر کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس کی تفصیل ہم ایک مستقل مضمون میں لکھ چکے ہیں۔ یہ کتاب (تحفۃ الہند) اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ عالمگیر جو اپنے بیٹوں کی ایک ایک حرکت سے خبر رکھتا تھا، اس کی نظرسے ایک کتاب جو اس کے محبوب ترین شہ زاویے کے لئے لکھی جائے، مخفی رہ جائے۔ نعمت خان عالی نے وقائع لکھی اور عالمگیر سے چھپانے کی بے انتہا کوشش کی، لیکن چھُپ نہ سکی۔ اس کتاب میں سے ہم صرف صنائع و بدائع کے حصے کا اقتباس درج کرتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوگا کہ ہندی زبان کے فن بدیع کوعربی سے کیا نسبت ہے؟ اس موقع پر یہ بات بھی اظہار کے قابل ہے کہ مصنف نے ہندی صنائع و بدائع کی تفصیل لکھ کر چند صفتیں خود اضافہ کی ہیں۔ ان کے خود نام رکھے ہیں اوران صفتوں میں خود ہندی اشعار کہہ کر درج کتاب کئے ہیں۔ جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مصنف کو خود اس زبان میں کہاں تک قدرت تھی؟ یہ صنائع اکثر بلکہ قریبا ً کل عربی سے لئے ہیں اور عربی ناموں کا ترجمہ بھاشا میں کردیا ہے۔ بھاشا میں علم بدیع کو النکار کہتے ہیں، چونکہ بلاغت کا اصلی کام جذبات اور احساسات پر اثر ڈالنا ہے، اس لئے النکار کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔
(۱) نورس
اس میں تمام احساسات کا استقصا کیا ہے اور ان کی نو قسمیں قرار دی ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے،
سر نگار رس، اس کی دوقسمیں ہیں، سنجوگ، بیوگ۔ یعنی وصال و فراق، ہاسیہ رس، مسرت و خوشی، کرنا رس، رحم و ہمدردی ویر رس، شجاعت و بہادری، رَود درس، غیظ و غضب بھے رس، خوف و بیم، بی بھس رس، نفرت و کراہت۔ شانت رس، سکون و اطمینان، ادبُھت رس، استعجاب
عربی اور فارسی زبان میں اس قسم کی سائنٹفک تقسیم نہیں ہے اور اس لحاظ سے ہندی کو فارسی اور عربی پر ترجیح ہے۔
(۲) بے ینگ
کسی مضمون کو لطیف، نازک اور شوخ پیرائے میں ادا کرنے کو کہتے ہیں، مثلا عورت اپنے محبوب شوہر سے جو کسی اور عورت پر عاشق ہے کہتی ہے کہ پیارے! تیری پیشانی پر جو سرخی ہے یہ تیری سرخ ٹوپی کا عکس ہے، یا رقیبہ کی حنا کا اثر ہے۔ سوال سے بظاہر صرف اس قدر مفہوم ہوتا ہے کہ عورت کو اپنے شوہر سے رقیبہ کے پاس جانے اور اس سے ملنے کی شکایت ہے، لیکن در پردہ وہ یہ بات ثابت کرنا چاہتی ہے کہ شوہر نے رقیبہ کے پاؤں پر پیشانی رگڑی ہے، جس سے پیشانی میں سرخی آگئی ہے، یہ وہ صفت ہے جس کو عربی میں تعریض کہتے ہیں۔سنسکرت کا انشا پرداز اس صفت کو اس قدر وسعت دیتا ہے کہ الفاظ اور عبارت کی ضرورت نہیں۔ صرف حالت کا دکھا دینا بھی اس صفت میں داخل ہے، مثلا محبوب رات بھر کا جاگا ہوا کسی صحبت سے آیا ہے جس کی وجہ سے بال پریشان ہیں، آنکھیں مخمور ہیں، انگڑائیوں پر انگرائیاں آرہی ہیں، عاشق زبان سے کچھ نہیں کہتا، صرف آئینہ لا کر سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ سب کچھ کہہ دے گا، یہ بھی اسی صفت میں داخل ہے۔
(۳) اُپماں
اس کے معنی تشبیہ کے ہیں۔ تشبیہ ایک نہایت لطیف صفت ہے۔ عربی میں اس کو نہایت وسعت دی ہے اور اس کی بہت سی قسمیں کی ہیں۔ بھاشا میں بعض باتیں تو مشترک ہیں۔ مثلا ً اپماں یعنی جب تشبیہ کے الفاظ مذکور ہوں، مثل چوں، مثل وغیرہ۔
بست اپماں
حرف تشبیہ مذکور نہیں، لیکن مقدر ہے جیسے’’قندِ لب‘‘ یعنی لب چوں قند، اس کوعربی میں استعارہ کہتے ہیں۔ لیکن بعض باتوں میں جدت ہے مثلاً۔۔۔ مالو اپماں، تشبیہ کا یہ طریقہ عربی اور فارسی میں نہیں، یا ہے تو اس کا کوئی خاص نام نہیں، یہ وہ صورت ہے کہ مشبہ بہ کے اجزا اور عوارض سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مثلا ًچاند کی تشبیہ میں کہا جائے کہ وہ ایک باغ ہے، اس میں جو سیاہی ہے وہ درختوں کی چھاؤں ہے، اس کی کرنیں درختوں کی ٹہنیاں ہیں، اس کو تشبیہ مرکب کہہ سکتے ہیں لیکن کسی قدر اس سے مختلف الصورت ہے۔
شرنکھلا اپماں، اس میں سلسلہ بہ سلسلہ تشبیہ دیتے جاتے ہیں، یعنی ایک چیز کو ایک چیز سے تشبیہ دی، پھر اس کو کسی اور چیز سے تشبیہ دی، پھر اس کو بھی کسی اور چیز سے تشبیہ دی۔ انینتی اپماں
یہ وہ صورت ہے جس کو فارسی میں تشبیہ الشئی بنفسہ کہتے ہیں، یعنی کسی شئے کو خود اسی شئے سے تشبیہ دینا، مثلا فارسی میں، چو تو گر کسی باشد آں ہم توئی۔ اردو میں آج کل کہتے ہیں، وہ شخص آپ اپنا نظیر ہے۔ حقیقت میں یہ مبالغے کی ایک صورت ہے، یعنی جب یہ کہنا ہوتا ہے کہ اس شخص کی نظیر نہیں تو یوں کہتے ہیں کہ وہ اپنا آپ ہی نظیر ہے اور کوئی اس کا نظیر نہیں، اس صفت کو فارسی میں اور بھی ترقی دی ہے، یعنی یوں کہتے ہیں کہ وہ خود بھی اپنا نظیر نہیں۔ اردومیں کسی کا مصرع ہے۔ تم سے جب تم ہی نہیں پھر کوئی تم سا کیا ہو۔ النکار یہ ایک عام لفظ ہے، جس کے معنی صنعت بدیع کے ہیں، سنسکرت میں اس کی بہت سی انواع ہیں، ان میں سے ۱۷ زیادہ متداول ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں۔
وترکتا النکار
یہ وہ صورت ہے کہ جس چیز سے ممدوح کو تشبیہ دیتے آئے ہیں اس میں عیب ثابت کیا جائے تا کہ ممدوح کی ترجیح ثابت ہو، مثلا سخاوت اور فیاضی میں ممدوح کو بادل سے تشبیہ دیتے ہیں، لیکن عنصری کہتا ہے،،
او ہمی بخشد ہم گرید تو ہمی بخشی و ہمی خندی
یعنی بادل برستا ہے تو روتا جاتا ہے اور تو برستا ہے تو ہنستا ہے۔ وِرودھا بھاس النکار
یعنی عبارت کے معنی واقع میں صحیح ہوں لیکن بظاہر غلط معلوم ہوں، جب ایک لفظ کے معنی مختلف ہوتے ہیں تو اس صفت سے کام لیتے ہیں۔ مثلا بھاشا میں سیام سیاہ کو بھی کہتے ہیں اور معشوق کو بھی۔ اسی طرح لال سرخ کو بھی کہتے ہیں اور محبوب کو بھی، اب اگر یہ کہا جائے کہ ’’سیام زرد‘‘ ہے تو بظاہر غلط ہوگا، کیونکہ سیاہ چیز زرد نہیں ہوسکتی، لیکن اگرسیام کے معنی محبوب کے لئے جائیں تو یہ جملہ صحیح ہوسکتا ہے۔ عربی میں اس صفت کو نہایت وسعت دی گئی ہے۔ مقامات حریری میں سو فقہی سوال اور جواب میں، جوابات تمام ترغلط معلوم ہوتے ہیں لیکن واقع میں صحیح ہیں، مثلا ایک سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وضو کے بعد نعل کو چھوئے تو کیا حکم ہے، جواب دیا ہے کہ وضو ٹوٹ جائےگا۔ نعل عربی میں جوتی کو کہتے ہیں اور یہ معنی زیادہ متداول ہیں، لیکن نعل، عورت کو بھی کہتے ہیں اور شافعیوں کے نزدیک عورت کے چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ سکارن اُت پریچھا حسن تعلیل کو کہتے ہیں، یہ صفت عربی اور فارسی میں بہت مستعمل ہے۔ بھاشا میں اس کے نہایت لطیف نئے نئے پیرائے ملتے ہیں۔ مثلاً چاند معشوق کا حسن چرا کر آسمان پر بھاگ گیا، اسی وجہ سے ہمیشہ چوروں کی طرح رات کو نکلتا ہے، فارسی کا شاعر کہتا ہے۔
از شرم ابر وانِ بلند تو ماہ نو خود را چناں نمود کہ کس دید و کس نہ دید یعنی معشوق کے ابرو کی شرم سے، ماہ نو اس طرح چھپ کر نکلا کہ کسی نے دیکھا، کسی نے نہیں دیکھا۔ اکارن ات پریچھا
مبالغہ اور اغراق کو کہتے ہیں۔
انکرن النکار
لف و نشر کو کہتے ہیں۔
سندیہ النکار
یعنی دو چیزوں میں جان بوجھ کر شک کرنا، مثلاً یوں کہیں کہ یہ چہرہ ہے یا چاند، زلف ہے یا سانپ، عربی میں اس کو تجاہل عارفانہ کہتے ہیں۔
سچہمان النکار
یعنی الفاظ و عبارت کے بغیر کسی مطلب کو محض اشارے و کنایے سے ادا کرنا، مثلاً عاشق معشوق سے سوال کرتا ہے کہ میں کب آؤں؟ معشوق کچھ جواب نہیں دیتا بلکہ اس کی بجائے ایک گورے چٹے آدمی کو نیلگوں برقع پہنا کر بھیجتا ہے، جس سے یہ اشارہ ہوتا ہے کہ جب چاند ڈوب جائے اور تاریکی چھا جائے تب آنا۔
اینا اپدیسا النکار
کسی پر بات ڈھال کے کہنا، مثلا ایک وفاکیش معشوقہ کا عاشق آیا ہے، وہ دوسرے شخص کی طرف مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ آہ آج میرا شوہر ایک کام کو گیا ہے، ساس بھی کہیں گئی ہے، گائے بھینس کا باندھنا، مجھ پر کس قدر شاق ہے اور اندھیری رات میں مجھ کو سخت ڈر معلوم ہوتا ہے لیکن ان باتوں کا اصلی مخاطب در حقیقت عاشق ہے۔ اردو فارسی میں اس کی مثال نہایت کثرت سے مل سکتی ہیں، لیکن مصنف نے جو مثال دی ہے، اس سے ہندوستان کی قدیم طرز معاشرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ات شیوکت النکار
اس کی چار قسمیں ہیں، یعنی نگر جادہ وسان، یعنی مشبہ بہ کو ذکر کرکے مشبہ مراد لیتے ہیں، مثلا یہ کہ چاند، سانپ، ہرن، چیتا، میرا دل اڑا لے گئے۔ رخسار، زلف، آنکھ، کمر کو چاند، سانپ، ہرن اور چیتے سے تشبیہ دیتے ہیں، لیکن اس جگہ خود ان چیزوں کو بول کر رخسار وغیرہ مراد لیا ہے۔ برکتسیا نتھابھان
اس میں تشبیہ کا شائبہ بھی باقی نہیں رہتا، اور نہ مشبہ و مشبہ بہ کا ذکر ہوتا، بلکہ مشبہ کی نفی کر کے اس کو عین مشبہ بہ فرض کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ اب تم وہ نہیں رہے بلکہ دوسری چیز ہوگئے۔
کارن کارج پرجی
اس صنعت میں مسبب سبب سے پہلے واقع ہوتا ہے۔ مثلا جرم مواخذہ کا سبب ہے، لیکن یوں کہتے ہیں، اس شہر میں عجیب رسم ہے کہ گناہ کرنے سے پہلے مواخذہ کرتے ہیں۔
جدیارتہ
اس میں مشبہ کو مشبہ بہ پر ترجیح دیتے ہیں، مثلا چاند سے معشوق کو تشبیہ دیتے ہیں، لیکن اگر یوں کہیں کہ چاند معشوق کے برابر اس وقت ہو سکتا ہے کہ اس کے یاقوت کے مثل لب، موتی کی طرح دانت، سانپ کی طرح زلف اورہرن جیسی آنکھیں ہوں۔ عربی و فارسی میں اس کی مثالیں کثرت سے ہیں۔
اچھر چتھکا النکار
یعنی صنعت سوال و جواب، فارسی میں یہ صنعت نہایت کثرت سے مستعمل ہے، لیکن بھاشا میں یہ جدت ہے کہ مسلسل سوالات کئے جاتے ہیں، اس کے بعد صرف ایک ایسا مفرد لفظ بولتے ہیں جو کل سوالوں کا جواب ہوتا ہے۔ مثلا ان سوالات کے جواب میں کہ زمین و زمان کی روشنی، بینائی، انسان کے معاش کا سبب کیا ہے؟ صرف عین کا لفظ کافی ہوگا کیونکہ عین، آفتاب، آنکھ، سونا کو کہتے ہیں اور وہ ان سوالات پر حاوی ہے۔ بھرمان النکار
مغالطہ میں پڑنا، مثلا یہ کہ میرا دل معشوق کے تل کو دانہ سمجھ کر اس کی زلف کے جال میں جا پھنسا، ایک ہندی شاعر نے اس مضمون کو عجیب لطیف پیرایے میں ادا کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک بھونرا توتے کی چونچ کو ڈھاک کا پھول سمجھ کر رس چوسنے کے لئے اس پر جا بیٹھا، توتے نے ا س کو جامن کا پھل سمجھا اور نگل گیا۔ ان صنائع میں سے ہم نے بہت سے چھوڑ دیے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً تو ان میں سے بہت سے فارسی اور عربی میں بہ کثرت مستعمل ہیں، دوسرے سنسکرت الفاظ کا تلفظ ہم سے صحیح ادا نہیں ہوتا۔ اس موقع پر یہ نکتہ خاص لحاظ کے قابل ہے کہ اگرچہ ہمارے انشا پردازوں نے سنسکرت اور برج بھاشا کے علم ادب کے نکتے نکتے کو سمجھا اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا لیکن اس کے فیض سے وہی محروم رہ گیا، جوسب سے زیادہ حقدار تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ اردو بھاشا سے نکلی اور اس کے دامن میں پلی، لیکن بھاشا سے جو سرمایہ اس کو ملا، صرف الفاظ تھے، مضامین اور خیالات سے اس کا دامن خالی رہا۔ بخلاف اس کے عربی زبان جس کو بھاشا سے کسی قسم کا تعارف نہ تھا، وہ سنسکرت اور بھاشا دونوں سے مستفید ہوئی۔ (تفصیل اس کے آگے آئے گی) اس کی وجہ یہ ہوئی کہ آج سے ۵۰ برس پہلے مسلمان اردو کو کوئی علمی زبان نہیں سمجھتے تھے، خط کتابت تک فارسی میں تھی، اردو شعرا جس قدر گزرے، ان میں سے ایک بھی عربی کا فاضل نہ تھا، یا یوں کہو کہ کوئی عالم اردو کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ اس میں انشا پردازی یا شاعری کا کمال دکھائے۔ علمی زبان اس وقت صرف عربی تھی۔ اس لئے جہاں سے جو سرمایہ ملتا تھا اسی کے خانے میں جمع کیا جاتا تھا۔ بہرحال ہندی شاعری کے مضامین، عربی زبان میں بعینہ نقل ہوئے، یعنی علمائے ادب نے سنسکرت اور بھاشا کی نظموں کا بعینہ عربی میں ترجمہ کیا۔ ہم چند مثالیں ذیل میں لکھتے ہیں۔ یہ مثالیں سبحۃ المرجان سے لی گئی ہیں۔ مولوی غلام علی آزاد نے ہر جگہ تصریح کردی ہے کہ وہ ہندی سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ لقد نحلت فی یوم راج جیبھا الی ان ھوی من ساعدیھا نضارھا ولما اماھا مخبرعن قدومھا علی ساعد الملآن ضاق سوارھا
(یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہندی میں عاشق عورت ہے اور مرد معشوق ہے) یعنی جس دن معشوق نے سفر کیا میں اس قدر دبلی ہو گئی کہ ہاتھ کے کڑے ڈھیلے ہوکر گر پڑے، لیکن جس دن قاصد نے آکر معشوق کے آنے کی خبر دی اور میں نے کڑوں کو پہننا چاہا تو اب وہ تنگ ہوگئے اور چڑھتے نہ تھے۔ مالاح فی شفتیک کحل راق انی ابینہ بحسن بیان ختمت علی شفتیک ذات تدلل کیلا تکلمنی علی الا حیان
واقعہ یہ ہے کہ شوہر کسی اور محبوبہ سے مل کر آیا ہے اور چونکہ اس نے اس کی سرمگیں آنکھوں کو چوما تھا، اس لئے اس کے ہونٹوں پر سیاہی لگ گئی، اب عورت شوہر سے کہنے آئی ہے کہ تیرے ہونٹوں پر جو سیاہی ہے، میں بتاؤں کیوں ہے اور کہاں سے آئی ہے، کسی کافر ادا نے تیرے ہونٹوں پر مہر کر دی ہے کہ تو کبھی مجھ سے بات نہ کرے۔ رات المھاۃ العامریہ صدرہ بالظفر مکلوما فقالت مرحبا ھذا ھلال تبتغیہ طبعتی روحی فداک لا لعبا
ایک بھولی کم سن عورت نے اپنے شوہر کے سینے پر ناخن کا خراش دیکھا جو ناخن کے مشابہ تھا، بھولے پن سے شوہر سے کہتی ہے کہ یہ تو نئی رات کا چاند ہے، مجھ کو بہت پیارا معلوم ہوتا ہے، مجھ کو دے دو، میں اس سے کھیلوں گی۔ یات الحب مع الحسناء بارحۃ حتی یدی حاجب من اعظم الشھب ورار زوجتہ فی الصبح فانقبضت لما رات طرفہ الحمر کالسبک قالت فتاۃ لھا فی ا لعین منعکس یاقوت سیمک النقر عن لھب بسمت من سماع القول واضعۃ فضل الخمار علی ضوء من الشنب فصار یغضب للصھباء کیف غدت تحلی رضا بک و ازورت عن الادب قالت لہ لاتکن غضبان مرحمۃ فصت طرفک محمرعن الغضب شوخی ادا، عارفانہ تجاہل اور نزاکت خیال کی اس سے بہتر مثالیں نہیں مل سکتی۔ اور صر ف ان اشعار سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ بھاشا کی شاعری کس قدر لطیف اور نازک ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ شوہر رات بھر کا جاگا ہوا کہیں سے آیا ہے اور اس کی آنکھیں سرخ ہیں، عورت کو بدگمانی ہوتی ہے کہ کسی محبوبہ کے ہاں رات گزاری ہے، اس لئے آنکھیں سرخ ہیں۔ ایک سہیلی بدگمانی کو مٹانا چاہتی ہے اور کہتی ہے کہ نہیں، یہ تمہارے ہونٹوں کی سرخی کا عکس ہے۔ عورت شرما کر آنچل کا گوشہ منہ پررکھ لیتی ہے(اس سے اصل میں یہ غرض ہے کہ اگرہونٹوں کی سرخی تھی، تو وہ آنچل میں چھپ گئی، اب کیوں سرخی نظر آتی ہے) شوہر غصے کی صورت بنا کر کہتا ہے کہ شراب کو کیا حق ہے جو تیرے آب دہن کا مقابلہ کرے، عورت کہتی ہے آپ غصہ نہ ہوں، میں سمجھی، آپ کی آنکھیں غصے کی وجہ سے سرخ ہیں۔ اردو زبان میں اگراس لطافت کی کوئی نظیر ہے تو یہ شعر ہے۔
نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے پسینا پوچھئے اپنی جبیں سے
جس زمانے میں مولوی غلام آزاد بلگرامی اورنگ آباد دکن میں تھے ان کے ماموں مولانا طفیل احمد نے بلگرام سے ایک ہندی نظم عربی میں ترجمہ کرنے کے لئے بھیجی۔ آزاد نے حسب ذیل اس کا ترجمہ کیا (سبحۃ المرجان ص ۲۵۰) زارت سعاد بلا وعد فقلت لھا یامرحبابک من القاک فی النعب قالت لقد جاءنی غیم و کلفنی انی اجوب الیک الارض بالھدب فقلت کیف طویت الارض ماشیہ وقت الدجی و سکوب الدمع من سحب قالت ھدانی شعاع البرق مرحمۃ فمثلہ سرت فی القیعان والنتب فقلت سیرک فی حنج الدجی غلط بلا رفیق شریک فی خطی الطلب قالت خیالک طول السیر کان سعی فی حالۃ عن تجاہ العین لم یغب یعنی معشوقہ میرے پاس اچانک آئی، میں نے کہا خیر ہے؟ اس وقت کیونکر تکلیف کی، بولی کہ بادل آگئے، انہوں نے مجھ کو آمادہ کیا کہ تیرے پاس آؤں، میں نے کہا رات اور بادل کی تاریکی میں راستہ کیوں کر نظر پڑا، بولی کہ بجلی نے رہ نما ساتھ کر دیا تھا، میں نے کہا، رات کو اکیلے سفر کرنا کسی طرح مناسب نہیں، بولی کہ میں تنہا نہیں آئی، تیرا خیال برابر میرے ساتھ رہا اور ساتھ آیا۔ واقعات مذکورہ بالا کو پڑھ کر ایک دفعہ اور ہمارے ہندو دوست کے وہ الفاظ یاد کرو کہ ’’مسلمانوں نے کبھی ہندوستان کے لٹریچر سے فائدہ نہیں اٹھایا۔‘‘ ہم وہ لوگ ہیں کہ، ہیچ گہ ذوق طلب از جستجو بازم نہ داشت دانہ می چیدم من آں روز یکہ خرمن داشتم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |