تجھ کو کس منہ سے بے وفا کہئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تجھ کو کس منہ سے بے وفا کہئے
by عاشق اکبرآبادی

تجھ کو کس منہ سے بے وفا کہئے
کوئی پوچھے سبب تو کیا کہئے

ہم سے کچھ وقت پر نہ بن آئی
لے گئے دل وہ مفت کیا کہئے

مجھ کو سمجھا کے گالیاں دیجے
فقرہ فقرہ جدا جدا کہئے

نہ میں عاشق نہ آپ کو کیا ہوں
غیر سے اپنا مدعا کہئے

جان دیتا ہوں کس خوشی سے میں
آج تو آپ مرحبا کہئے

آئنہ میں دکھا کے کہتا ہوں
آپ ہی ہیں کہ دوسرا کہئے

اب نہ کیجے موئے پہ سو درے
اب نہ عاشق کو با وفا کہئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse