تجھ میں تو ایک خوئے جفا اور ہو گئی
Appearance
تجھ میں تو ایک خوئے جفا اور ہو گئی
میں اور ہو گیا نہ وفا اور ہو گئی
گل کا کہیں نشاں ہے نہ بلبل کا ذکر ہے
دو روز میں چمن کی ہوا اور ہو گئی
آمد کی سن کے کھولی تھی بیمار غم نے آنکھ
تم آ گئے امید شفا اور ہو گئی
بنت عنب تو رندوں کو یوں ہی مباح تھی
زاہد نظر پڑا تو روا اور ہو گئی
شکل قبول ہو کے پھری آسمان سے
تاثیر ہو گئی تو دعا اور ہو گئی
یاد آ گئی جو کعبے میں آبرو کی اے وحیدؔ
اپنی نماز عشق ادا اور ہو گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |