تجھ عشق کے مریض کی تدبیر شرط ہے
Appearance
تجھ عشق کے مریض کی تدبیر شرط ہے
لیکن شفا کو گردش تقدیر شرط ہے
سودائی دل کو زلف گرہ گیر شرط ہے
دیوانے کے علاج میں زنجیر شرط ہے
نالے تو میں بہت کئے اس بت کے سامنے
پتھر کے نرم کرنے کو تاثیر شرط ہے
ہو خاک راہ عشق میں تا قدر ہو تری
مس کے طلا بنانے کو اکسیر شرط ہے
کافی ہے اک اشارۂ ابرو ترا ہمیں
کچھ عاشقوں کے قتل کو شمشیر شرط ہے
دل کی شکست و ریخت کی میرے تو لے خبر
ہر گھر کی دیر پائی کو تعمیر شرط ہے
کرتا ہے کس گنہ پہ عقوبت ہمیں تو یار
تعزیر کے تو واسطے تقصیر شرط ہے
سوداؔ میں اس چمن میں ہوں جوں غنچہ دل گرفت
ماتم سرا میں صورت دلگیر شرط ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |