تجھ سے ہی کیا وفا کی نہیں خوش نگاہ چشم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تجھ سے ہی کیا وفا کی نہیں خوش نگاہ چشم
by جوشش عظیم آبادی

تجھ سے ہی کیا وفا کی نہیں خوش نگاہ چشم
جتنے سفید پوش ہیں سب ہیں سیاہ چشم

اس مہروش کے ہونے نہ دے گریہ رو بہ رو
جب تک سفید ہووے نہ مانند ماہ چشم

اندھیر ہے دیار محبت میں ہمدماں
تقصیر دل کی ٹھہرے کرے جو گناہ چشم

دونوں مکان غیر سے خالی ہیں آ کے بیٹھ
تیرے پسند خواہ یہ دل آئے خواہ چشم

اس کی شب فراق میں اتنا تو رو کہ ہو
دریائے اشک میں تری کشتی تباہ چشم

مجھ کو جلا کے خاک کیا اور بہا دیا
تم سے تو یہ نہ تھی مجھے اے اشک و آہ چشم

ؔجوشش وہ کون سا ہے جفا کار جس پر آج
منہ پر لہو ملے ہوئے ہے داد خواہ چشم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse