تجھ سے بوسہ میں نہ مانگا کبھو ڈرتے ڈرتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تجھ سے بوسہ میں نہ مانگا کبھو ڈرتے ڈرتے
by ولی عزلت

تجھ سے بوسہ میں نہ مانگا کبھو ڈرتے ڈرتے
دیکھیے آب بقا پاؤں گا مرتے مرتے

کیا ہے انصاف کہ جوں صبح تو ہنستا ہے ہنوز
مر چکا شمع سا میں گریہ ہی کرتے کرتے

اب تو منہ دے مجھے اے نور نظر آئینہ وار
گر گئیں پلکیں سرشک آنکھ سے جھڑتے جھڑتے

نہ ہوا درد سر ناز کا صندل تجھے ہائے
گھس گیا ماتھا ترے پانو پہ دھرتے دھرتے

جب سے دکھلا گیا جاں بخش تو جلوے کی بہار
مر گئیں بلبلیں گل زار سے گرتے گرتے

ہم دوانوں کو نہیں حاجت زنداں طفلو
چھپ گئے ڈھیر میں ہم سنگ کے پڑتے پڑتے

ذرہ کر مہر تو عزلتؔ پہ کہ مانند ہلال
خالی ہوں آپ سے دن ہجر کے پھرتے پھرتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse