تجھ بن سرشک خوں کا ہے آنکھوں سے طغیاں اس قدر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تجھ بن سرشک خوں کا ہے آنکھوں سے طغیاں اس قدر
by میر محمدی بیدار

تجھ بن سرشک خوں کا ہے آنکھوں سے طغیاں اس قدر
برسا نہیں اب تک کہیں ابر بہاراں اس قدر

گلشن میں گر دیکھیں مجھے ہوئیں سنبل و نرگس خجل
دل ہے پریشاں اس قدر آنکھیں ہیں حیراں اس قدر

رکھتا ہے تو جس جا قدم ہوتا ہے لوہو کا نشاں
پامال کرتا ہے کوئی خون شہیداں اس قدر

ڈھونڈھے جو تو دامن تلک پاوے نہ ثابت تو اسے
میں چاک پھرتا ہوں کئے ناصح گریباں اس قدر

بیدارؔ کو دکھلا کے تو نے قتل اوروں کو کیا
کرتا ہے اے ظالم کوئی ظلم نمایاں اس قدر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse