تجھ بن بہت ہی کٹتی ہے اوقات بے طرح
Appearance
تجھ بن بہت ہی کٹتی ہے اوقات بے طرح
جوں توں کے دن تو گزرے ہے پر رات بے طرح
ہوتی ہے ایک طرح سے ہر کام کی جزا
اعمال عشق کی ہے مکافات بے طرح
بلبل کر اس چمن میں سمجھ کر ٹک آشیاں
صیاد لگ رہا ہے تری گھات بے طرح
پوچھا پیام بر سے جو میں یار کا جواب
کہنے لگا خموش کہ ہے بات بے طرح
ملنے نہ دے گا ہم سے تجھے ایک دم رقیب
پیچھے لگا پھرے ہے وہ بد ذات بے طرح
کوئی ہی مور ہے تو رہے اس میں شیخ جی
داڑھی پڑی ہے شانے کے اب ہاتھ بے طرح
سوداؔ نہ مل کر اپنی تو اب زندگی پہ رحم
ہے اس جواں کی طرز ملاقات بے طرح
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |