تجھے کچھ بھی خدا کا ترس ہے اے سنگ دل ترسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تجھے کچھ بھی خدا کا ترس ہے اے سنگ دل ترسا
by نظیر اکبر آبادی

تجھے کچھ بھی خدا کا ترس ہے اے سنگ دل ترسا
ہمارا دل بہت ترسا ارے ترسا نہ اب ترسا

میں اس پر مبتلا وہ غیر مذہب شوخ اب ترسا
قیامت ہے مسلماں عاشق اور معشوق ہے ترسا

فقط تیر نگہ سے تو نہ دل کی آرزو نکلی
ترے قرباں لگا اب کے کوئی اس سے بھی بہتر سا

نہ جاؤں میں تو اس کے پاس لیکن کیا کروں یارو
یکایک کچھ جگر میں آ کے لگ جاتا ہے نشتر سا

پکارا دور سے دے کر صفیر اس نے تو کیا میرا
دھڑک کر یک بیک سینے میں دل لوٹا کبوتر سا

ہوا بیمار تیرے عشق میں جو چرخ چارم پر
مسیحا پڑھ رہا ہے کچھ بچھا کر اپنا بستر سا

نظیرؔ اک دو گلے کرنے بہت ہوتے ہیں خوباں سے
چلو اب چپ رہو بس کھول بیٹھے تم تو دفتر سا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse