تجھے کل ہی سے نہیں بے کلی نہ کچھ آج ہی سے رہا قلق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تجھے کل ہی سے نہیں بے کلی نہ کچھ آج ہی سے رہا قلق
by قلق میرٹھی

تجھے کل ہی سے نہیں بے کلی نہ کچھ آج ہی سے رہا قلق
تری عمر ساری یوں ہی کٹی تو ہمیشہ یوں ہی جیا قلقؔ

ہوا دل کے جانے کا اب یقیں کہ وہ درد بر میں مرے نہیں
نہ وہ اضطراب قضا کہیں نہ وہ حشر خیز بلا قلقؔ

مجھے حشر کر دیا بیٹھنا مجھے قہر ہو گیا ٹھہرنا
ہے بسان صبر گریز پا نہیں غم گسار مرا قلق

انہیں نالہ کرنے کا رنج کیا انہیں آہ بھرنے کا رنج کیا
انہیں میرے مرنے کا رنج کیا انہیں میرے جانے کا کیا قلق

یہی رشک نے دیے مشورے کبھی پردہ ان کا نہ کھولیے
مرے جی ہی جی میں پھرا کیے مرے دل ہی دل میں رہا قلق

نہ تو روئے غیر نہ گھر رہے نہ شب فراق میں مر رہے
نہ وفا کرے نہ ستم سہے نہ جفا ہوئی نہ ہوا قلق

نہ وہ میں رہا نہ وہ تو رہا نہ وہ آرزو نہ وہ مدعا
ہوا زندگی کا بھی فیصلہ مگر ایک تیرا رہا قلق

رہے لاکھ صدمے نفس نفس جیے کیوں کہ کوئی پرائے بس
شب وصل مرنے کی تھی ہوس شب ہجر جینے کا تھا قلق

نہیں چین ان کو بھی ایک دم کہ ہے فکر جور کا غم سا غم
ہوئے مجھ پہ روز نئے ستم رہا ان کو روز نیا قلق

کرے ربط کوئی کسی سے کیا کہ اٹھا طریق نباہ کا
نہ کرے گی تجھ سے وفا جفا نہ کرے گا مجھ سے وفا قلق

میں جلا تو شعلے میں جوش تھا جو ہوا میں خاک ہے زلزلہ
میں ہزار شکل بدل چکا پہ کسی طرح نہ چھپا قلق

نہیں تیرے پھرنے کا کچھ گلہ کہ زمانہ سارا بدل گیا
جو شب وصال میں چین تھا وہی روز ہجر بنا قلق

وہ ہے التفات دم ستم کہ زیادہ اس سے نہیں کرم
مرے چاک دل کا رفو الم مرے درد جاں کی دوا قلق

گئے واں بھی پر نہ گھٹا الم چھٹے سب سے پر نہ چھٹا الم
مرے پاس سے نہ ہٹا الم مرے ساتھ سے نہ ٹلا قلق

ابھی تھا صلاۓ زن سبق ابھی تھی کتاب ورق ورق
کبھی مدرسے میں رہا قلقؔ کبھی میکدے میں رہا قلقؔ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse