تبلیغ پیام ہو گئی ہے
Appearance
تبلیغ پیام ہو گئی ہے
حجت بھی تمام ہو گئی ہے
جب موج صبا ادھر سے آئی
تفریح مشام ہو گئی ہے
کتنی بودی ہے طبع انساں
عادت کی غلام ہو گئی ہے
خواہش کہ تھی آدمی کو لازم
بڑھ کر الزام ہو گئی ہے
تمہید پیام ہی میں اپنی
تقریر تمام ہو گئی ہے
بچنا کہ وبائے صحبت بد
اس دور میں عام ہو گئی ہے
حلقے میں قلندروں کے آ کر
تحقیق تمام ہو گئی ہے
جرگہ میں لقندروں کے جا کر
حکمت بدنام ہو گئی ہے
شیریں دہنوں کی طرز گفتار
مقبول انام ہو گئی ہے
بے جا بھی نکل گئی ہے جو بات
تحسین کلام ہو گئی ہے
نامرد کے ہاتھ میں پہنچ کر
شمشیر نیام ہو گئی ہے
تکفیر برادران دیں بھی
شرط اسلام ہو گئی ہے
کیا شعر کہیں کہ شاعری کی
ترکی ہی تمام ہو گئی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |