تا نہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تا نہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
by مومن خان مومن

تا نہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں
ہم نہیں چاہتے کمی اپنی شب دراز میں

اور ہی رنگ آج ہے عارض گل عذار کا
خون دل اپنا تھا مگر گو نہ رخ طراز میں

کیونکہ نہ آدھی آدھی رات جاگے وہ جس کا دھیان ہو
آہوئے نیم خواب میں نرگس نیم باز میں

خسرو عیش وصل یار جاں کنی اور کوہ کن
اپنا جگر تو خوں ہوا عشق کے امتیاز میں

بن ترے بزم صور میں ہیں یہ قباحتیں کہ ہے
نغمۂ صور کا اثر نغمۂ نے نواز میں

ان سے اب التفات کی غیر کو ہیں شکایتیں
سن کے مرا مبالغہ منت احتراز میں

کیا سبھی سینے جل چکے کیا سبھی دل پگھل چکے
بوئے کباب اب نہیں آہ جگر گداز میں

پردہ نشیں کے عشق میں پردہ دری نہ ہو کہیں
ہوتی ہیں بے حجابیاں جان نہفتہ راز میں

رخنۂ در سے غیر پاس دیکھا کسے کہ آج ہے
رخنہ گری کچھ اور ہی نالۂ رخنہ ساز میں

یاد بتاں میں لاکھ بار فرط قلق سے ہم بھی تو
بیٹھے اٹھے ہیں مومنؔ آپ گر رہے شب نماز میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse