تا عمر آشنا نہ ہوا دل گناہ کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تا عمر آشنا نہ ہوا دل گناہ کا
by شاد عظیم آبادی

تا عمر آشنا نہ ہوا دل گناہ کا
خالق بھلا کرے تری ترچھی نگاہ کا

تنہا مزا اٹھاتا ہے دل رسم و راہ کا
بینا تو ہے پہ بس نہیں چلتا نگاہ کا

جی بھر کے دیکھ لوں تو کر اس جرم پر شہید
یوں اپنے سر پہ خون نہ لے بے گناہ کا

رونا جو ہو تو رو لے بس اے چشم وقت نزع
اب آج خاتمہ بھی ہے روز سیاہ کا

پہنچا کے ہم کو قبر میں جاتے ہیں اپنے گھر
لیجیے انھوں نے وعدہ کیا تھا نباہ کا

تقدیر حشر سے ہمیں لائی بہشت میں
ارمان دل میں رہ گیا اس دادخواہ کا

پاپوش ناز کرتی ہے ان کی زمین پر
چشمک زن سپہر ہے گوشہ کلاہ کا

دیکھا نہ کارواں نے پلٹ کر کہ کون ہوں
میری طرح نہ ہو کوئی واماندہ راہ کا

منزل کے قطع کرنے کا محکم ہوا جو قصد
اک اک درخت خضر بنا میری راہ کا

ڈھوئے کہاں تک اس تن خاکی کو عمر بھر
اب روح کو ملے کوئی گوشہ نباہ کا

بہتر کہیں تھے مجھ سے وہ مے خوار ساقیا
حیلہ جو ڈھونڈتے رہے عفو گناہ کا

اشکوں کا سلسلہ کہیں ٹوٹے بھی اے فراق
تھک بھی چکے قدم مری فریاد و آہ کا

اک تجھ پہ منحصر نہیں اے خضر کر نہ ناز
ہر راہرو کو تکتا ہے واماندہ راہ کا

رکھا جناں میں بھی ہمیں مغموم تا ابد
اقرار ہم سے لے کے ہمارے گناہ کا

اظہار غم کیا تو یہ اس نے دیا جواب
چہرہ گواہی دیتا ہے جھوٹے گواہ کا

غوغائے حشر دل میں سماتا نہیں مرے
ہنگامہ یاد ہے مجھے فرقت میں آہ کا

بھجوا دیا بہشت میں پوچھا نہ دل کا حال
کیا خوب فیصلہ کیا اس دادخواہ کا

کیا جانیے تلاش اثر میں کہاں گئی
اب تک کہیں پتہ نہ لگا میری آہ کا

سینے میں اپنے نالہ و شیون کا شور ہے
ماتم ہمیشہ ہے دل غفراں پناہ کا

یوسف کو اے سپہر کنویں میں گرا تو دے
منظور امتحاں ہے زلیخا کی چاہ کا

کیونکر نہ اہل بزم میں اے شادؔ ہو رسوخ
نعم البدل ہوں راسخؔ غفراں پناہ کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse