تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے
by حیدر علی آتش

تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے
اس زلف کی بو سونگھئے سودا ہے تو یہ ہے

قینچی نہیں چلوائی مرے نامہ نے کس پر
پروار کبوتر ہو جو عنقا ہے تو یہ ہے

کچھ سرو کا رتبہ ہی نہیں قد سے ترے پست
شمشاد او صنوبر سے بھی بالا ہے تو یہ ہے

ملتا جو نہیں یار تو ہم بھی نہیں ملتے
غیرت کا اب اپنے بھی تقاضا ہے تو یہ ہے

اے نور نظر معجزۂ حسن سے تیرے
اندھے بھی کہیں گے کہ مسیحا ہے تو یہ ہے

محشر کو بھی دیدار کا پردہ نہ کرے یار
عاشق کو جو اندیشۂ فردا ہے تو یہ ہے

بینا ہوں جو آنکھیں تو رخ یار کو دیکھیں
نظارہ کے قابل جو تماشا ہے تو یہ ہے

مضموں دہن یار کا کیا فکر سے نکلے
لاحل جو معموں میں معما ہے تو یہ ہے

گہہ یاد صنم دل میں ہے گہہ یاد الٰہی
کعبہ ہے تو یہ ہے جو کلیسا ہے تو یہ ہے

معشوق و مے و خانۂ خالی و شب ماہ
عاشق کے لیے حاصل دنیا ہے تو یہ ہے

دیوانے نہ کیوں کر خل و زنجیر پہنتے
سرکار جنوں کا جو سراپا ہے تو یہ ہے

دل کے لیے ہے عشق تو دل عشق کی خاطر
مے ہے تو یہ ہے اور جو مینا ہے تو یہ ہے

دیوانۂ قد کے کبھی نالوں کو تو سنیے
ہنگامۂ محشر کا سا غوغا ہے تو یہ ہے

ثابت دہن یار دلیلوں سے کر آتشؔ
حجت کی جو شاعر کے لیے جا ہے تو یہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse