تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست
by حیدر علی آتش

تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست
مثل تصویر نہالی میں ہوں ہم پہلوئے دوست

چہرۂ رنگیں کوئی دیوان رنگیں ہے مگر
حسن مطلع ہیں مسیں مطلع ہے صاف ابروئے دوست

ہجر کی شب ہو چکی روز قیامت سے دراز
دوش سے نیچے نہیں اترے ابھی گیسوئے دوست

دور کر دل کی کدورت محو ہو دیدار کا
آئنے کو سینہ صافی نے دکھایا روئے دوست

واہ رے شانے کی قسمت کس کو یہ معلوم تھا
پنجۂ شل سے کھلیں گے عقدہ ہائے موئے دوست

داغ دل پر خیر گزری تو غنیمت جانیے
دشمن جاں ہیں جو آنکھیں دیکھتی ہیں سوئے دوست

دو مریں گے زخم کاری سے تو حسرت سے ہزار
چار تلواروں میں شل ہو جائے گا بازوئے دوست

فرش گل بستر تھا اپنا خاک پر سوتے ہیں اب
خشت زیر سر نہیں یا تکیہ تھا زانوئے دوست

یاد کر کے اپنی بربادی کو رو دیتے ہیں ہم
جب اڑاتی ہے ہوائے تند خاک کوئے دوست

اس بلائے جاں سے آتشؔ دیکھیے کیوں کر بنے
دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse