تارے گنتے رات کٹتی ہی نہیں آتی ہے نیند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تارے گنتے رات کٹتی ہی نہیں آتی ہے نیند
by امداد علی بحر

تارے گنتے رات کٹتی ہی نہیں آتی ہے نیند
دل کو تڑپاتا ہے ہجر آنکھوں کو ترساتی ہے نیند

گھر میں آنکھوں کے قدم رکھنے نہیں پاتی ہے نیند
دونوں پلکوں کے طمانچے رات بھر کھاتی ہے نیند

فرش راحت پر مجھے جس وقت یاد آتا ہے یار
مرغ دل ایسا پھڑکتا ہے کہ اڑ جاتی ہے نیند

کون ہے راحت رساں اپنا شب اندوہ میں
موت بھی آنکھیں چراتی ہے جو شرماتی ہے نیند

سوؤں کیا آنکھوں کی ڈھیلے ہو گئی ہیں سنگ راہ
آ کے تیرے خواب گہ میں ٹھوکریں کھاتی ہے نیند

عین راحت ہے مجھے خدمت گزاری یار کے
تلوے آنکھوں سے جو سہلاتا ہوں آ جاتی ہے نیند

دن نکل آتا ہے اٹھنے کو نہیں جی چاہتا
ساتھ جب سوتا ہے وہ کیا پاؤں پھیلاتی ہے نیند

خواہش دیدار آنکھوں میں بھری ہے سوؤں کیا
پتلیوں میں اپنی جا تل بھر نہیں پاتی ہے نیند

مرغ بسمل عاشق مہجور دونو ایک ہیں
اس کو پھڑکاتی ہے مرگ اور اس کو تڑپاتی ہے نیند

کیسے تکیے کیسے توشک کیسا ہوتا ہے پلنگ
میں وہ غافل ہوں مرے گھر آ کے پچھتاتی ہے نیند

بھول جاتا ہوں میں غفلت میں خیال یار کے
بدلے راحت کی اذیت مجھ کو پہنچاتی ہے نیند

باغ جنت کو یوں ہی خواب عدم دکھلائے گا
جس طرح کوئے صنم مجھ کو دکھا لاتی ہے نیند

جب تھکے اس کی سواری دوڑ کر یوں سوئے ہم
جیسے سوداگر کو گھوڑے بیچ کر آتی ہے نیند

سوتے سوتے جب پکار اٹھتا ہوں اپنے یار کو
مرقدوں کے سونے والوں کی اچٹ جاتی ہے نیند

یار گل اندام کا زانو کہاں یہ سر کہاں
بحرؔ میں سوتا ہوں مجھ کو خواب دکھلاتی ہے نیند

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse