تاروں والی رات کا عالم پینے اور پلانے سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تاروں والی رات کا عالم پینے اور پلانے سے
by کیفی چریاکوٹی

تاروں والی رات کا عالم پینے اور پلانے سے
ساقی نے مے کھینچ کے رکھ دی گویا دانے دانے سے

تار گریباں سینے والے چاک بہ دامن آئے ہیں
یعنی کچھ تقدیر نہ سلجھی الجھی تھی دیوانے سے

رات نہیں یہ زیست کا دن ہے ہوش میں آ برباد نہ کر
شمع فقط مہمان سحر ہے کون کہے پروانے سے

دیر و حرم سے اٹھنے والے آئے ہیں میخانے میں
اس پہ اگر تقدیر اٹھا دے جائیں کہاں میخانے سے

جوش جنوں سا رہبر ہو تو ہوش کی منزل دور نہیں
دیوانے نے راہ بنا دی بستی تک ویرانے سے

ساقی کے انداز کو دیکھو بے خود پینے والوں میں
ملتی ہے مے قسمت سے گو بٹتی ہے پیمانے سے

ظرف مری قسمت کا بھرا ہے آپ نگاہ ساقی نے
پیمانے کو خم سے ملی اور خم کو ملی پیمانے سے

عمر دو روزہ کیفیؔ کی یوں کٹ ہی گئی یوں کٹنی تھی
کام رہا پیمانے سے اور ساقی کے میخانے سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse