تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں
by مومن خان مومن

تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں
بیچارگی سے جان پڑی کس عذاب میں

بے نالہ منہ سے جھڑتے ہیں بے گریہ آنکھ سے
اجزائے دل کا حال نہ پوچھ اضطراب میں

چرخ و زمیں میں توبہ کا ملتا نہیں سراغ
ہنگامۂ بہار و ہجوم سحاب میں

اے زہرہ چہرہ دشمن منحوس کو نہ دیکھ
نالے بہیں گے خون کے اس فتح یاب میں

اتنی کدورت اشک میں حیراں ہوں کیا کہوں
دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں

فکر مآل سے مے و شاہد رہے عزیز
پیری میں موت یاد تھی پیری شباب میں

تم نکلے بہر سیر تو نکلے گا مہر بھی
ہووے گا اجتماع شب ماہتاب میں

ڈوبی ہجوم اشک سے کشتی زمین کی
ماہی کو اضطراب ہوا جوش آب میں

کھولا جو دفتر گلہ اپنا زیاں کیا
گزری شب وصال ستم کے حساب میں

اے حشر جلد کر تہہ و بالا جہان کو
یوں کچھ نہ ہو امید تو ہے انقلاب میں

قاتل جفا سے باز نہ آیا وفا سے ہم
فتراک میں جو سر ہے تو جاں ہے رکاب میں

بازیچہ کر دیا ستم یار و جور چرخ
طفلی سے غلغلہ ہے مرا شیخ و شاب میں

مومنؔ یہ عالم اس صنم جاں فزا کا ہے
دل لگ گیا جہان سراسر خراب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse