بے یار شہر دل کا ویران ہو رہا ہے
Appearance
بے یار شہر دل کا ویران ہو رہا ہے
دکھلائی دے جہاں تک میدان ہو رہا ہے
اس منزل جہاں کے باشندے رفتنی ہیں
ہر اک کے ہاں سفر کا سامان ہو رہا ہے
اچھا لگا ہے شاید آنکھوں میں یار اپنی
آئینہ دیکھ کر کچھ حیران ہو رہا ہے
گل دیکھ کر چمن میں تجھ کو کھلا ہی جا ہے
یعنی ہزار جی سے قربان ہو رہا ہے
حال زبون اپنا پوشیدہ کچھ نہ تھا تو
سنتا نہ تھا کہ یہ صید بے جان ہو رہا ہے
ظالم ادھر کی سدھ لے جوں شمع صبح گاہی
ایک آدھ دم کا عاشق مہمان ہو رہا ہے
قرباں گہ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سو
دشوار جان دینا آسان ہو رہا ہے
ہر شب گلی میں اس کی روتے تو رہتے ہو تم
اک روز میرؔ صاحب طوفان ہو رہا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |