بے کسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
Appearance
بے کسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
اک دل غم خوار رکھتے تھے سو گلشن میں رہا
پنجۂ گل کی طرح دیوانگی میں ہاتھ کو
گر نکالا میں گریباں سے تو دامن میں رہا
شمع ساں جلتے رہے لیکن نہ توڑا یار سے
رشتۂ الفت تمامی عمر گردن میں رہا
ڈر سے اس شمشیر زن کے جوہر آئینہ ساں
سر سے لے کر پاؤں تک میں غرق آہن میں رہا
ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل
اب یہ دعویٰ حشر تک شیخ و برہمن میں رہا
درپئے دل ہی رہے اس چہرے کے خال سیاہ
ڈر ہمیں ان چونٹوں کا روز روشن میں رہا
آہ کس انداز سے گزرا بیاباں سے کہ میرؔ
جی ہر اک نخچیر کا اس صید افگن میں رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |