بے چین جو رکھتی ہے تمہیں چاہ کسو کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے چین جو رکھتی ہے تمہیں چاہ کسو کی
by مرزا محمد رفیع سودا

بے چین جو رکھتی ہے تمہیں چاہ کسو کی
شاید کہ ہوئی کارگر اب آہ کسو کی

اس چشم کا غمزہ جو کرے قتل دو عالم
گوشے کو نگہ کے نہیں پرواہ کسو کی

زلفوں کی سیاہی میں کچھ اک دام تھے اپنے
قسمت کہ ہوئی رات وہ تنخواہ کسو کی

کیا مصرف بے جا سے فلک کو ہے سروکار
وہ شے کسو کو دے جو ہو دل خواہ کسو کی

دنیا سے گزرنا ہی عجب کچھ ہے کہ جس میں
کوئی نہ کبھو روک سکے راہ کسو کی

چھینے سے غم عشق شکیبائی و آرام
اے دل یہ پڑی لٹتی ہے بنگاہ کسو کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse