بے وجہ نہیں گرد پریشاں پس محفل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے وجہ نہیں گرد پریشاں پس محفل
by مرزا محمد تقی ہوسؔ

بے وجہ نہیں گرد پریشاں پس محفل
آتا ہے کوئی بے سر و ساماں پس محفل

از بس کشش عشق سے آگاہ تھی لیلیٰ
تھی دیکھتی وہ فتنۂ دوراں پس محفل

کس سوختہ کی خاک سے اٹھا ہے بگولا
اک شعلۂ جوالہ ہے پیچاں پس محفل

فکر قدم ناقہ ہوا قیس کو پیدا
دیکھا جو ہیں صحرائے مغیلاں پس محفل

اے ناقہ کش اتنی بھی نہ تو تیز روی کر
مجنوں ز خود و رفتہ ہے نالاں پس محفل

شاید میں اسے دیکھوں ہوسؔ با لب خنداں
جاتا ہوں اس امید پہ گریاں پس محفل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse