بے وجہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے وجہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا
by مرزا محمد رفیع سودا

بے وجہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا
کوئی دم کو پھولتا ہے یہ گل زار دیکھنا

نرگس کی طرح خاک میری اگیں ہیں چشم
ٹک آن کے یہ حسرت دیدار دیکھنا

کھینچے تو تیغ ہے حرم دل کے صید پر
اے عشق پر بھلا تو مجھے مار دیکھنا

ہے نقص جان دید ترا پر یہی ہے دھن
جی جاؤ یار ہو مجھے یک بار دیکھنا

اے طفل اشک ہے فلک ہفتمیں پہ عرش
آگے قدم نہ رکھیو تو زنہار دیکھنا

پوچھے خدا سبب جو مرے اشتیاق کا
میری زباں سے ہو یہی اظہار دیکھنا

ہر نقش پا پہ تڑپے ہے یارو ہر ایک دل
ٹک واسطے خدا کے یہ رفتار دیکھنا

کرتا تو ہے تو آن کے سوداؔ سے اختلاط
کوئی لہر آ گئی تو مرے یار دیکھنا

تجھ بن عجب معاش ہے سوداؔ کا ان دنوں
تو بھی ٹک اس کو جا کے ستم گار دیکھنا

نے حرف و نے حکایت و نے شعر و نے سخن
نے سیر باغ و نے گل و گلزار دیکھنا

خاموش اپنے کلبۂ احزاں میں روز و شب
تنہا پڑے ہوئے در و دیوار دیکھنا

یا جا کے اس گلی میں جہاں تھا ترا گزر
لے صبح تا بہ شام کئی بار دیکھنا

تسکین دل نہ اس میں بھی پائی تو بہر شغل
پڑھنا یہ شعر گر کبھو اشعار دیکھنا

کہتے تھے ہم نہ دیکھ سکیں روز ہجر کو
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse