بے مہر و وفا ہے وہ دل آرام ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے مہر و وفا ہے وہ دل آرام ہمارا
by شاہ نصیر

بے مہر و وفا ہے وہ دل آرام ہمارا
کیا جانے کیا ہووے گا انجام ہمارا

کیا قہر ہے اوروں سے وہ ملتا پھرے ظالم
اور مفت میں اب نام ہے بد نام ہمارا

اے آب دم تیغ ستم کیش بجھا پیاس
ہوتا ہے تری چاہ میں اب کام ہمارا

لبریز کر اس دور میں اے ساقیٔ کم ظرف
مت رکھ مئے گلگوں سے تہی جام ہمارا

کس طرح نکل بھاگوں میں اب آنکھ بچا کر
صد چشم سے یاں ہے نگراں دام ہمارا

یہ زلف و رخ یار ہے اے شیخ و برہمن
باللہ یہاں کفر اور اسلام ہمارا

بیعت کا ارادہ ہے ترے سلسلے میں جوں
شانہ ہے اب اے زلف سیہ فام ہمارا

اس شوخ تلک کوئی نہ پہنچا سکا ہمدم
جز حقہ یہاں بوسہ بہ پیغام ہمارا

کیا کہئے کس انداز سے شرمائے ہے وہ شوخ
تقریباً اگر لے ہے کوئی نام ہمارا

صیاد سے کہتے تھے کہ بے بال و پری میں
آزاد نہ کر بد ہے کچھ انجام ہمارا

پرواز کی طاقت نہیں یاں تا سر دیوار
کیوں کر ہو پہنچنا بہ لب بام ہمارا

اس عشق میں جیتے نہیں بچنے کے نصیرؔ آہ
ہو جائے گا اک روز یوں ہی کام ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse