بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں
Appearance
بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں
ورنہ میں پھاند کے ہی سات سمندر جاؤں
داستانیں ہیں مکانوں کی زبانوں پہ رقم
پڑھ سکوں میں تو مکانوں سے بیاں کر جاؤں
میں منظم سے بھلا کیسے کروں سمجھوتا
ڈوبنے والے ستاروں سے میں کیوں ڈر جاؤں
روح کیا آئے نظر جسم کی دیواروں میں
ان کو ڈھاؤں تو اس آئینے کے اندر جاؤں
اور دو چار مصائب کی کسر باقی ہے
یہ اٹھا لاؤں تو میں دنیا کے سفر پر جاؤں
زہر ہے میرے رگ و پے میں محبت شاید
اپنے ہی ڈنک سے بچھو کی طرح مر جاؤں
تھک کے پتھر کی طرح بیٹھا ہوں رستے میں ظفرؔ
جانے کب اٹھ سکوں کیا جانیے کب گھر جاؤں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |