بے خوف غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے خوف غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہو
by محمد علی جوہر

بے خوف غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہو
بہتر ہے اس سے یہ کہ سرے سے زباں نہ ہو

ہوں بے ہراس یہ مجھے رکھیں کسی جگہ
ڈر ہو وہاں کہ تیری حکومت جہاں نہ ہو

اک تو جو مہرباں ہو تو ہر اک ہو مہرباں
اور یوں نہ ہو بلا سے کوئی مہرباں نہ ہو

ہم کو تو ایک تجھ سے دو عالم میں ہے غرض
سب بدگماں ہوا کریں تو بدگماں نہ ہو

دیر و حرم میں ڈھونڈ کے سب تھک گئے اسے
اب کون کہہ سکے کہ کہاں ہو کہاں نہ ہو

کرنا ہی تھا حرام تو پھر وعدہ کس لیے
یہ کیا کہ مے حلال وہاں ہو یہاں نہ ہو

ہمت نہ ہار دے کوئی منزل کے سامنے
پروردگار یوں بھی کوئی ناتواں نہ ہو

ملنے تو پھر چلے ہو مشیخت پناہ سے
قشقہ کا دیکھو آج جبیں پر نشاں نہ ہو

جوہرؔ اس ایک دل کے لیے اتنے مشغلے
کی ہے خدا کی چاہ تو عشق بتاں نہ ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse