بے تکلف بوسۂ زلف چلےپا لیجئے
Appearance
بے تکلف بوسۂ زلف چلےپا لیجئے
نقد دل موجود ہے پھر کیوں نہ سودا لیجئے
دل تو پہلے لے چکے اب جان کے خواہاں ہیں آپ
اس میں بھی مجھ کو نہیں انکار اچھا لیجئے
پاؤں پکڑ کر کہتی ہے زنجیر زنداں میں رہو
وحشت دل کا ہے ایما راہ صحرا لیجئے
غیر کو تو کر کے ضد کرتے ہیں کھانے میں شریک
مجھ سے کہتے ہیں اگر کچھ بھوک ہو کھا لیجئے
خوش نما چیزیں ہیں بازار جہاں میں بے شمار
ایک نقد دل سے یارب مول کیا کیا لیجئے
کشتہ آخر آتش فرقت سے ہونا ہے مجھے
اور چندے صورت سیماب تڑپا لیجئے
فصل گل کے آتے ہی اکبرؔ ہوئے بے ہوش آپ
کھولیے آنکھوں کو صاحب جام صہبا لیجئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |