بے تکلف بوسۂ زلف چلےپا لیجئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے تکلف بوسۂ زلف چلےپا لیجئے
by اکبر الہ آبادی

بے تکلف بوسۂ زلف چلےپا لیجئے
نقد دل موجود ہے پھر کیوں نہ سودا لیجئے

دل تو پہلے لے چکے اب جان کے خواہاں ہیں آپ
اس میں بھی مجھ کو نہیں انکار اچھا لیجئے

پاؤں پکڑ کر کہتی ہے زنجیر زنداں میں رہو
وحشت دل کا ہے ایما راہ صحرا لیجئے

غیر کو تو کر کے ضد کرتے ہیں کھانے میں شریک
مجھ سے کہتے ہیں اگر کچھ بھوک ہو کھا لیجئے

خوش نما چیزیں ہیں بازار جہاں میں بے شمار
ایک نقد دل سے یارب مول کیا کیا لیجئے

کشتہ آخر آتش فرقت سے ہونا ہے مجھے
اور چندے صورت سیماب تڑپا لیجئے

فصل گل کے آتے ہی اکبرؔ ہوئے بے ہوش آپ
کھولیے آنکھوں کو صاحب جام صہبا لیجئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.