بے ترے جان نہ تھی جان مری جان کے بیچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے ترے جان نہ تھی جان مری جان کے بیچ
by شیخ ظہور الدین حاتم

بے ترے جان نہ تھی جان مری جان کے بیچ
آن کر پھر کے جلایا تو مجھے آن کے بیچ

ایک دن ہاتھ لگایا تھا ترے دامن کو
اب تلک سر ہے خجالت سے گریبان کے بیچ

تو نے دیکھا نہ کبھی پیار کی نظروں سے مجھے
جی نکل جائے گا میرا اسی ارمان کے بیچ

آج عاشق کے تئیں کیوں نہ کہے تو در در
واسطہ یہ ہے کہ موتی ہے ترے کان کے بیچ

ہوئی زباں لال ترے ہاتھ سے کھا کے بیڑا
کیا فسوں پڑھ کے کھلایا تھا مجھے پان کے بیچ

کچھ تو مجنوں کو حلاوت ہے وہاں دیوانو
چھوڑ شہروں کو جو پھرتا ہے بیابان کے بیچ

دیکھ حاتمؔ کو بھلا تو نے برا کیوں مانا
کیا خلل اس نے کیا آ کے تری شان کے بیچ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.