بے تابئ دل نے زار پا کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے تابئ دل نے زار پا کر
by وزیر علی صبا لکھنؤی

بے تابئ دل نے زار پا کر
دے دے پٹکا اٹھا اٹھا کر

گھر میں دعویٰ نہ حسن کا کر
یوسف سے نکل کے سامنا کر

زلفوں کو نہ چھوڑ تو بڑھا کر
نازک ہے گرے گا جھونک کھا کر

بیٹھے جو وہ شب نقاب اٹھا کر
بجھنے لگی شمع جھلملا کر

برباد نہ کر تو آبرو کو
مانند حباب سر اٹھا کر

اس گل کی مژہ نے مار ڈالا
کانٹے کی طرح سکھا سکھا کر

بے تابئ دل اگر دکھاؤں
بجلی رہ جائے تلملا کر

سفاک نے بند بند کاٹا
چوٹیں ماریں جھکا جھکا کر

اللہ رے سوزش دل اے یار
مارا کس آگ میں جلا کر

پیرے کوئی خاک بحر غم میں
آخر ڈوبا میں ڈھب ڈھبا کر

پھبتی کہتی ہیں ابر تر کے
اچھی سوجھی مجھے رلا کر

وہ مست ہیں عرش پر ٹکے ہاتھ
نشہ میں گرے جو لڑکھڑا کر

گرد غم نے زمیں جھکائی
چھوڑا مجھے خاک میں ملا کر

بوسے کے سوال پر وہ بگڑے
منہ کی کھائی زباں ہلا کر

نالہ کوئی بن پڑا جو ہم سے
افلاک کو رکھ دیا مٹا کر

خوف دوزخ سے کانپتا ہوں
ساقی مجھے جام دے تپا کر

وہ نزع میں حال سن کے روئے
کام آئی زباں لڑکھڑا کر

قصہ دل سے اٹھا دوئی کا
پرچھا ہو جائے فیصلہ کر

جب کوچ کیا صباؔ عدم کو
رہ جائیں گے یار خاک اڑا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse