بے باک نہ دیکھا کوئی قاتل کے برابر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے باک نہ دیکھا کوئی قاتل کے برابر
by جلالؔ لکھنوی

بے باک نہ دیکھا کوئی قاتل کے برابر
شرم آنکھ میں پائی نہ گئی تل کے برابر

دشمن کوئی اے یار مرا اور ترا دوست
ہوگا نہ زمانے میں مرے دل کے برابر

دل متصل کوچۂ محبوب ہوا گم
لٹنا تھا پہنچ کر مجھے منزل کے برابر

کم بختیٔ واعظ ہے کہ ہو وعظ کی صحبت
رندان قدح نوش کی محفل کے برابر

ہم پی گئے جو اشک قریب مژہ آیا
کشتی ہوئی جب غرق تو ساحل کے برابر

آہوں کے شرر گرد نہیں داغ جگر کے
تابندہ ہیں اختر مہ کامل کے برابر

پردہ نہ اٹھا قیس نے لیلیٰ کو نہ دیکھا
جھونکا بھی نہ آیا کوئی محمل کے برابر

مقتل میں یہ حسرت رہی اے ضعف پس ذبح
پہنچے نہ تڑپ کر کسی بسمل کے برابر

گھر تک در جاناں سے جلالؔ آئیے کیوں کر
ایک ایک قدم ہے کئی منزل کے برابر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse