بیچنے آئے کوئی کیا دل شیدا لے کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیچنے آئے کوئی کیا دل شیدا لے کر
by بیخود دہلوی

بیچنے آئے کوئی کیا دل شیدا لے کر
دام دیتے ہی نہیں آپ تو سودا لے کر

چار دن بھی تو نہ رکھا دل شیدا لے کر
آپ نے ہم سے بھی کمبخت کو کھویا لے کر

قتل کے بعد نزاکت سے جو تھک جاتے ہیں
بیٹھ جاتے ہیں وہ کشتے کا سہارا لے کر

غیر کا قتل کچھ ایسا تو نہیں ہے مشکل
چھوڑ دو ہاتھ کوئی نام ہمارا لے کر

سانس کے ساتھ جو ہوتی ہے کھٹک سینے میں
ضعف سے درد بھی اٹھتا ہے سہارا لے کر

آ گیا مجھ کو نظر اپنی وفا کا انجام
میں نے تلوار کو قاتل سے جو دیکھا لے کر

اب تو بیخودؔ کو یہ دعویٰ ہے بقول استاد
آدمی عشق کرے نام ہمارا لے کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse