بیٹھ جا کر سر منبر واعظ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیٹھ جا کر سر منبر واعظ
by جلیل مانکپوری

بیٹھ جا کر سر منبر واعظ
ہو گیا تو تو مرے سر واعظ

مے تو جائز نہیں یہ جائز ہے
روز کھاتا ہے مرا سر واعظ

بند کرتا ہے در توبہ کیوں
کھول کر وعظ کا دفتر واعظ

واعظوں کی میں کروں کیا تعریف
گھر میں مے خوار ہیں باہر واعظ

میکشوں ہی کے لئے ہے یہ بات
جو ہے دل میں وہی لب پر واعظ

دیکھ کس رنگ سے اٹھی ہے گھٹا
تہہ کر اب وعظ کا دفتر واعظ

کس طرح پیتے ہیں پینے والے
دیکھ لینا لب کوثر واعظ

موت بھی آتی ہے تو حیلے سے
آ گیا رندوں میں کیوں کر واعظ

سختیاں رندوں پہ کرتے کرتے
عقل پر پڑ گئے پتھر واعظ

آتش تر کا جو پڑ جائے مزہ
پھونک دے وعظ کا دفتر واعظ

رند آپے سے جو باہر ہیں تو ہوں
تو نہ ہو جامے سے باہر واعظ

شیشۂ دل کا خدا حافظ ہے
تیری ہر بات ہے پتھر واعظ

ذکر مے وعظ میں جب آتا ہے
جھومتا ہے سر منبر واعظ

لے کے آنکھوں سے لگاتا ساغر
پڑھ جو لیتا خط ساغر واعظ

محفل وعظ میں کیوں جاؤں جلیلؔ
ہیں مجھے شیشہ و ساغر واعظ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse