بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
by حفیظ جونپوری

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی
اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے

دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پر
رات کو چادر مہتاب تنی ہوتی ہے

تم بچھڑتے ہو جو اب کرب نہ ہو وہ کم ہے
دم نکلتا ہے تو اعضا شکنی ہوتی ہے

زندہ در گور ہم ایسے جو ہیں مرنے والے
جیتے جی ان کے گلے میں کفنی ہوتی ہے

رت بدلتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری
جب بہار آتی ہے توبہ شکنی ہوتی ہے

غیر کے بس میں تمہیں سن کے یہ کہہ اٹھتا ہوں
ایسی تقدیر بھی اللہ غنی ہوتی ہے

نہ بڑھے بات اگر کھل کے کریں وہ باتیں
باعث طول سخن کم سخنی ہوتی ہے

لٹ گیا وہ ترے کوچے میں دھرا جس نے قدم
اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے

حسن والوں کو ضد آ جائے خدا یہ نہ کرے
کر گزرتے ہیں جو کچھ جی میں ٹھنی ہوتی ہے

ہجر میں زہر ہے ساغر کا لگانا منہ سے
مے کی جو بوند ہے ہیرے کی کنی ہوتی ہے

مے کشوں کو نہ کبھی فکر کم و بیش رہی
ایسے لوگوں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے

ہوک اٹھتی ہے اگر ضبط فغاں کرتا ہوں
سانس رکتی ہے تو برچھی کی انی ہوتی ہے

عکس کی ان پر نظر آئینے پہ ان کی نگاہ
دو کماں داروں میں ناوک فگنی ہوتی ہے

پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظؔ
صاف انکار سے خاطر شکنی ہوتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse