بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک
by نظیر اکبر آبادی

بیٹھے ہیں اب تو ہم بھی بولو گے تم نہ جب تک
دیکھیں تو آپ ہم سے ناخوش رہیں گے کب تک

اقرار تھا سحر کا ایسا ہوا سبب کیا
جو شام ہونے آئی اور وہ نہ آیا اب تک

محفل میں گل رخوں کے آیا جو وہ پری رو
ہو شکل حیرت اس کی صورت رہے وہ سب تک

بوسہ نظیرؔ ہم کو دینے کہا تھا اس نے
ہم وقت پا کے جس دم لینے کی پہنچے ڈھب تک

ہر چند تھا نشے میں وہ شوخ تو بھی اس نے
ہرگز ہمارے لب کو آنے دیا نہ لب تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse