بیٹھے ہوئے ہیں ہم خود آنکھوں میں دھول ڈالے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیٹھے ہوئے ہیں ہم خود آنکھوں میں دھول ڈالے
by مضطر خیرآبادی

بیٹھے ہوئے ہیں ہم خود آنکھوں میں دھول ڈالے
اے روئے یار تو نے پردے فضول ڈالے

جھگڑا ہی تم چکا دو جب تیغ کھینچ لی ہے
آفت میں پھر نہ مجھ کو جان ملول ڈالے

صورت تو ایک ہی تھی دو گھر ہوئے تو کیا ہے
دیر و حرم کی بابت جھگڑے فضول ڈالے

تربت سے کوئی پوچھے نیرنگئ زمانہ
بعضوں نے خاک ڈالی بعضوں نے پھول ڈالے

کہتے ہیں جس کو جلوہ وہ بھی کہیں رکا ہے
آڑیں فضول کی ہیں پردے فضول ڈالے

صدقے دل و جگر کو مژگاں پہ کر چکا ہوں
میں نے تو اپنے ہاتھوں کانٹوں پہ پھول ڈالے

کیسے حساب جوڑوں اعمال معصیت کا
جب اس کی شان رحمت گنتی میں بھول ڈالے

مضطرؔ دلوں کے اندر رکھنے کے تھے یہ کافر
دوزخ میں کیوں خدا نے جنت کے پھول ڈالے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse