بیٹھو یاں بھی کوئی پل کیا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیٹھو یاں بھی کوئی پل کیا ہوگا
by نظیر اکبر آبادی

بیٹھو یاں بھی کوئی پل کیا ہوگا
ہم بھی عاشق ہیں خلل کیا ہوگا

دل ہی ہو سکتا ہے اور اس کے بغیر
جان من دل کا بدل کیا ہوگا

حسن کے ناز اٹھانے کے سوا
ہم سے اور حسن عمل کیا ہوگا

کل کا اقرار جو میں کر کے اٹھا
بولا بیٹھ اور بھی چل کیا ہوگا

تو جو کل آنے کو کہتا ہے نظیرؔ
تجھ کو معلوم ہے کل کیا ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse