بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں
by نسیم بھرتپوری

بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں
ہیں بجلیاں کہ کوند رہی ہیں سحاب میں

لکھوں گا خط میں خوب عدو کی برائیاں
ہو کر خفا وہ کچھ نہ لکھیں گے جواب میں

ہم کو ہے ان کی فکر تو ان کو عدو کی فکر
دونوں ہیں ایک سلسلۂ اضطراب میں

اس چھیڑ کے نثار کہ سن کر سوال وصل
آئینہ رکھ دیا مرے آگے جواب میں

یاروں میں بوئے مہر و محبت نہیں نسیمؔ
کیا خاک اڑ رہی ہے جہان خراب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse